کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 72
بجائے متعددمتفق علیہ مسائل کوبھی متنازع فیہ بنادیاہےاور اختلاف وانشقاق کی خلیج کومزیدوسیع کردیاہے۔ امت مسلمہ کےمتفقہ مسائل سےانحراف کی مزیدمثالیں خودفراہی صاحب کےفرمودات کی روشنی میں آگےآئیں گی، ورنہ ان کےشاگرد رشید اورفکرفراہی کے مسلّمہ شارح کےبیسیوں انحرافات ہم پوری تفصیل سے واضح کرآئےہیں۔ فراہی صاحب کےپانچ اصولوں کاتجزیہ قرآ ن اور حدیث کےباہمی تعلق کےحوالےسےہم فراہی صاحب کےاصولوں کوپانچ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں اوران پانچوں کےپانچوں اصولوں کامآل اورنتیجہ انکارحدیث ہے۔ دلائل اورتفصیل ملاحظہ ہو۔ کچھ باتیں پہلےگزرچکی ہیں۔ اوران پرگفتگوبھی ہوچکی ہے۔ تاہم یہاں ان کااعادہ اوراس کی مختصروضاحت ناگزیرہے تاکہ یہ بحث ایک جامع شکل میں سامنے آجائے۔ پہلااصول: حدیث کی حیثیت فرع کی ہے۔ قرآ ن کی تفسیر میں اصل واساس کی حیثیت صرف قرآن کوحاصل ہے، احادیث کی حیثیت فرع کی ہے۔ (مولانا فراہی کادعویٰ) یہ اصول ان کے اقتباس میں گزرچکاہے۔ ہمارےخیال میں یہ اصول دیکھنےمیں بڑاخوش نماہے کہ لوگ سمجھتےہیں کہ اس میں قرآ ن کی عظمت کااظہارہے۔ لیکن درحقیقت یہ اصول قرآن کوبازیچۂ اطفال بنانے والاہے۔ اس اصول میں حدیث کی جس طرح بے توقیری اورقرآن کی تفسیر میں اصل الاصول چیز کوجس طرح بے دخل کیاگیاہے، عام طورپرلوگو ں نےاس پرتوجہ نہیں دی۔ ہم اس کی وضاحت پہلے بھی کرآئے ہیں اورکچھ گزارشات پھرپیش خدمت ہیں۔ حدیث پریہ کتنابڑاظلم ہے کہ تاریخ اورقدیم آسمانی صحیفے دونوں اس لحاظ سے ساقط الاعتبارہیں کہ وہ رطب