کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 71
کوئی نصّ صریح اور متفق علیہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاموجودنہیں ہے، ان میں دوسروں سے جھگڑانہ کرو۔ جس حصے پرامت متفق ہے، یاجس پرنصّ صریح اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامتفق علیہ عمل موجودہے، اس سے”امام“فراہی کی مراد کیاہے جس پرقناعت کرنےکی تاکیدکی گئی ہے؟
اس پرباربار غورکرنےکےباوجود موصوف کی مرادیامدعاسمجھنےسےہم قاصرہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ امت توہراس حکم پرمتفق ہے جوحدیث صحیح سےثابت ہے۔
علاوہ ازیں امت کااس پربھی اتفاق ہے کہ حدیث صحیح بھی کسی حکم کےاثبات کےلیے، اسی طرح نصّ صریح ہے جس طرح قرآ ن کریم کی کوئی آیت ہے۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کامتفق علیہ عمل بھی شرعی حجت اورنصّ صریح ہے۔
فراہی گروہ بتلائے کہ وہ امت کے ان متفقہ امورکومانتاہے؟ نہیں، ہرگزنہیں۔ خودان کاامام بھی نہیں مانتاجس کواپنےمذکورہ اقتباس کی رُوسے مانناچاہیےتھا۔ اسی لیے ہم نےکہاہے کہ اس اقتباس سے ”امام“ کامقصود ومدعاکیاہے؟ ہماری سمجھ سےبالاہے۔
فراہی گروہ کاامت کےمتفق علیہ مسائل سےانکاروانحراف
امت مسلمہ صحیحین (بخاری ومسلم) کی احادیث کی صحت پرمتفق ہے۔ کیافراہی گروہ مانتاہے؟ نہیں مانتا، یقیناً نہیں مانتا، نہ ان کا”امام“اور نہ ان کے پیروکار۔
٭ امت مسلمہ، معراج جسمانی کی متفقہ طورپرقائل ہے، کیافراہی گروہ اس کومانتاہے؟ نہیں مانتا۔
٭ امت مسلمہ، قیامت کےقریب نزول مسیح کےعقیدے پرمتفق ہے۔ کیافراہی گروہ اس کومانتاہے؟
٭ امت مسلمہ، متفقہ طورپرحدرجم کی قائل ہے۔ کیافراہی گروہ اس حدکومانتاہے؟
٭ حدیث سے قرآ ن کےعموم کی تخصیص نہ صرف جائز ہےبلکہ ثابت ہے اور پوری امت اس اصول پرمتفق ہے۔ فراہی گروہ اپنےامام سمیت اس مسلّمہ اصول کونہیں مانتا۔ بلکہ وہ اس کوقرآن پراضافہ یاقرآن کانسخ قراردیتاہے۔
یہ چندمثالیں اس بات کوواضح کرنےکےلیے دی ہیں کہ فراہی صاحب کےاقتباس میں امت کےمتفق علیہ مسائل کوماننے کاجودعویٰ کیاگیاہے وہ محض دکھلاواہے۔ اس گروہ نےامت کےمتفق علیہ مسائل کوماننے کے