کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 70
حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ 99فیصداحادیث اصطلاحی طورپرآحاد ہیں۔ اگرحدیث واحد حجت نہیں توسارا ذخیرۂ احادیث یکسرغیرمعتبرقرارپاتاہے۔ پھرصرف وہی احادیث- اس عنوان کے تحت-مردود کیوں ہوں جن سےاہل اغراض کےخود ساختہ نظریات کابطلان واضح ہوتاہے۔ جب کہ جن احادیث سے ان کے باطل نظریات کوکچھ سہاراملتاہے یاوہ ان سے غلط استدلال کرکے ان سےاپنا مدعاثابت کرتےہیں، وہ بھی تواحادیث آحادہی ہیں، پھران سےاستدلال کےکیامعنی ؟ بہرحال احادیث آحاد کی حجت پرہم تفصیلی بحث اصلاحی صاحب کی ”شروح بخاری“پرنقد کےضمن میں کرآئےہیں، اس لیے یہاں مزیدتفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ہم فراہی صاحب کے ضمن میں صرف یہی عرض کریں گےکہ موصوف نے بھی انکارحدیث کے اس ”مسلّمہ اصول“ کواستعمال کیاہے۔ چنانچہ وہ لکھتےہیں: ”جب ایسے اصطلاحی الفاظ کامعاملہ پیش آئے جن کی پوری تعریف اورتصویرقرآ ن میں بیان نہ ہوئی ہوتوان کے بارےمیں خوامخواہ کواخبارآحاد پرنہیں جم جاناچاہیےورنہ اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ خود بھی شک میں پڑوگے اور دوسروں کےاعمال کوبھی غلط ٹھہراؤ گے اور ان سے جھگڑوگےاور تمہارے درمیان کوئی چیز ایسی نہیں ہوگی جواس جھگڑےکافیصلہ کرسکے۔ ایسی صورتوں میں صحیح راہ عمل یہ ہے کہ جتنے حصے پرامت متفق ہے اتنے پرقناعت کرواورجن چیزوں کے بارےمیں کوئی نصّ صریح اور متفق علیہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاموجود نہیں ہے ان میں اپنے دوسرے بھائیوں سے جھگڑانہ کرو، جہاں تک اصطلاحات شرعیہ کاتعلق ہے، قرآ ن کی اسی وسیع شاہراہ پر چلناچاہیے۔ “[1] یہ پورا اقتباس ژولیدہ فکری کامظہرہے یااحادیث سے گریز واعتراض کی ترغیب پر مبنی ہے۔ اس میں پہلی چیز اخبار آحاد کے عنوان سے احادیث سےگریزاختیارکرنےکی نہ صرف ترغیب ہے بلکہ احادیث کو لڑائی جھگڑےکاباعث قراردیاہے۔ جب کہ واقعہ اس کےبرعکس ہےحدیث وحدت امت کی ضامن ہے اورفہم قرآن کےتنازعات میں بھی حجت قاطع ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جتنےحصے پرامت متفق ہے اتنے پرقناعت کرواورجن چیزوں کے بارے میں
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص:40