کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 67
لیے صحیحین تک کی متفق علیہ روایات کو ”بےہودہ“یا”منافقین کی گھڑی ہوئیں“یا”قرآن کے خلاف“ قراردےدیناان کامعمول ہے اور اس کےمقابلے میں ضعیف ومنکربلکہ موضوع روایات سے استدلال کرلیناان سب کاشیوہ ہے۔
٭ اورجب مذکورہ تینوں باتیں ان کےہاں مسلّمات کی حیثیت رکھتی ہیں تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ دونوں قرآ ن کی تفسیرلغت کے ذریعے سے، یاعرب کےجاہلی کلام کےذریعےسے، یاقدیم محرّف آسمانی صحیفوں کےذریعےسےیااپنے مزعومہ”نظم“ کے ذریعےسے، یا اپنےباطل نظریات کی روشنی میں، یاقرآن کی معنوی تحریفات کےذریعےسےکرتےہیں۔
ظاہربات ہے کہ اہل حق، اہل سنت ان”استدلالات“کوکس طرح صحیح سمجھ سکتےہیں؟ یاقرآن کے بارے میں ان کی چکنی چپڑی باتوں سے اورقرآن کی”عظمت وتقدس“کےنام پرقرآن کی بیخ کنی کرنےوالے طرز عمل سے کس طرح دھوکہ کھاسکتےہیں؟
بلاشبہ بہت سے لوگ، جس میں بعض اکابراہلِ علم بھی شامل ہیں، فراہی صاحب کےبارےمیں غلط فہمی کاشکار ہوئےہیں اوراب بھی بعض اس کاشکارہیں۔ لیکن الحمدللہ، اللہ نے ہمیں اس دام ہم رنگ زمیں سےبچایاہے اورہم علیٰ وجہ البصیرت اس بات کےقائل ہیں اوراس کاواشگاف اعلان کرتےہیں کہ فراہی صاحب نے”خدمتِ قرآن “ کےنام پرجوکچھ کیاہے، وہ ہرگزقرآن کی خدمت نہیں ہے بلکہ قرآنی حقائق سے انحراف ہے، قرآن کی معنوی تحریفات ہیں اور احادیث صحیحہ سے اعراض وگریز کاراستہ دکھاکرقرآ ن کریم کی من مانی تفسیرکرنے کاراستہ چوپٹ کھول دیاہے۔ اس کاارتکاب خودانہوں نےبھی کیاہے اور ان کےشاگردرشید اورفکرفراہی کےمستند اور مسلّمہ شارح امین احسن اصلاحی نےتواس کامکمل نمونہ پیش کردیاہے جس سے ہماری باتوں کی مکمل تصدیق وتائید ہوجاتی ہے۔
مولانا فراہی کےحدیث سے اعراض وگریز کے مزیددلائل
مولانا فراہی نے حافظ جلال الدین سیوطی کا ایک اقتباس نقل کیاہے جس میں قرآن کی تفسیرمیں دوسرے نمبرپرحدیث کوبنیاد قراردیاہے اوراس حدیث کوپیش کیاکہ خودنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی فرمایاہے ”مجھے قرآن