کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 66
رویوں کو ملاحظہ کیاہے۔ اسی طرح کے ایک چوتھے نہایت فاضل محقق -جنہوں نےبراہ راست مولانا فراہی کی تحریروں کو پوری گہری نظرسے دیکھااور پڑھاہے۔ نیزفراہی فکر کے اسیروں اور ان کے عقیدت مندوں کی تحریریں بھی ان کی نظرمیں ہیں۔ گویاوہ بھی قریب سے مشاہدہ کرنے والوں اوران کی فکرسے پوری آشنائی رکھنے والے ہیں -یہ ہیں مولانارضی الاسلام ندوی (علی گڑھ-بھارت)۔ انہوں نے پوری غیرجانبداری سے اور نہایت محققانہ انداز سے مولانا فراہی کی فکرپرمتعدد مضامین لکھےہیں جوان کی کتاب”نقدفراہی“میں جمع کردیےگئے ہیں۔ اس کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں: ”غورکیجیے کہ ایک طرف مولانافراہی اوران کے مکتب فکرکے نمائندےصحیحین اور حدیث کی دوسری مستندکتابوں میں مذکوراحادیث کوبھی خاطرمیں نہیں لاتے اور دوسری طرف اپنےنظریےکےاثبات میں کیسی کیسی مہمل روایتوں کاسہارالیتےہیں ؟ “[1] فراہی صاحب اوردیگرمنکرین حدیث کی حدیث کے بارےمیں یکسانیت بہرحال بات چل رہی تھی حدیث کے بارےمیں فراہی صاحب کےرویے کی جوہم ان ہی کے اقتباسات کی روشنی میں کررہے تھے۔ اسی سلسلےمیں کچھ مزیدوضاحتیں پیش خدمت ہیں جن سے ہمارےاس موقف کی مزدیدتائید ہوجائے گی کہ حدیث کے بارے میں مولانا فراہی اور منکرین حدیث کے موقف میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ ہماری یہ با ت جذباتیت یاکسی قسم کے بغض وعناد پرمبنی نہیں ہے بلکہ نہایت مضبوط دلائل اس کی پشت پرہیں۔ بعض دلائل پچھلےصفحات میں گزرےہیں، کچھ ان شاءاللہ آگے آئیں گے۔ ان کھلے اورچُھپےمنکرین حدیث کےخلاف، مشترکہ ”دلائل“حسب ذیل ہیں: ٭ حدیث غیرمحفوظ ہے(فراہی صاحب کابھی بیان گزرچکاہے کہ حدیث کی محفوظیت کادعوی غلوپرمبنی ہے) ٭ قرآن کی تفسیروتوضیح میں حدیث کانہ کوئی کردارہے اورنہ اس کی کوئی اہمیت ہے۔ ٭ حدیث کی صحت وضعف کافیصلہ احادیث کی تحقیق کے مسلّمہ اصول نقدوجرح کی روشنی میں نہیں بلکہ یہ دونوں قسم کے منکرین اپنی عقل عیارسے اور اپنےخود ساختہ باطل نظریات کی روشنی میں کرتےہیں۔ اسی
[1] ”نقدفراہی“ص:211، طبع۔ 2010ء، علی گڑھ بھارت۔