کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 65
اضافہ ہوگا۔ البتہ اگروہ واضح راستہ اختیارکرے جوتمام لغت کے تتبع اورنور کامل کے اتباع یعنی قرآن مجیدمیں تدبر کاراستہ ہے تووہ نہ صرف ”وَانْحَر“کے درست معانی تک رسائی پائے گابلکہ وہ اطمینان بھی حاصل کرےگا۔ “[1] عقل وشعوررکھنے والے اہل انصاف سے ہم پوچھتے ہیں کہ یہ استدلال اور اس کایہ نتیجہ صحیح ہے ؟ کیا یہ جواہر ریزوں او رسنگ ریزوں کوایک ہی سطح پررکھنانہیں ہے؟ احادیث صحیحہ سے مسلمان عوام کو بدظن کرنے کایہ کونسامعقول طریقہ ہے؟ کیاضعیف وموضوع اورصحیح ومتفق علیہ روایات یکساں حیثیت کی حامل ہیں ؟ کہ اول الذکر روایات کے حوالےسے ثانی الذکرروایات کوبھی کنڈم قراردیاجاسکے؟ مولانا فراہی اوران کے اَتْباع کااصل موقف مولانا فراہی کے مذکورہ اقتباس سے واضح ہے کہ موصوف کارویہ بالکل وہی ہے جومنکرین حدیث کاہے۔ تمام منکرین حدیث صحیح روایات کوتوتسلیم نہیں کرتےلیکن اپنےخود ساختہ نظریےکےاثبات میں ضعیف، منکراور موضوع روایات کوبطورثبوت پیش کرتےہیں۔ دوسرارویہ منکرین حدیث کایہ بھی ہے کہ صحیح حدیثوں کو جھٹلا نےیاان سےبدظن کرنےکےلیےغیرمستند روایتوں کوپیش کرتےہیں یاان کوباہم متناقض باورکراتے ہیں۔ حالانکہ صحیح روایت اورغیرمستندروایت اگرایک دوسرےسےمختلف مفہوم کی حامل ہیں توان کوباہم متناقض کس طرح کہاجاسکتاہے؟ وہاں توتناقض سرےسےہے ہی نہیں۔ ایک روایت جوسنداًثابت ہی نہیں، اس سےتو استدلال ہی جائز نہیں ہے۔ اس کو صحیح روایت کامناقض قرار دینا توصریحاً بددیانتی ہے۔ یہ دونوں رویے-افسوس ہے-مولانافراہی نے بھی اختیارکیے ہیں اور ان کے اَتْباع(پیروکار)بھی اسی راہ پرگامزن ہیں۔ اس کانتیجہ ہے کہ صحیحین کی روایات بھی ان کی ناوک افگنی سے محفوظ نہیں ہیں۔ نہ ”امام“ سے اور نہ”ماموم“سے۔ اس سلسلےمیں تین واقفان ِحال اور محرمانِ راز کے اقتباسات پیش کیے جاچکے ہیں اوریہ تینوں عام افراد نہیں ہیں بلکہ چوٹی کے اصحابِ علم وفضل ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے وابستگانِ فراہی کاقریب سے مشاہدہ اور ان کے
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص:66۔