کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 64
”امام“موصوف کایہ اقتباس پڑھ کرہمیں اپناسر پیٹناپڑگیا اور سوچ میں پڑگئے کہ جس شخص کی امامت وعظمت کااتناچرچاہے، وہ استدلال کی اس پست ترین سطح پربھی آسکتاہے جس کانمونہ مذکورہ اقتباس میں ہے؟
بات توساری مستنداورصحیح روایات کی دینی حجت اور تفسیرمیں ان سے استناد کی ہے اور صحیحین کی ایک روایت پیش کرنے کےبعد(جس کی صحیح حقیقت ہم نے واضح کردی ہے )خلط مبحث کاعجیب ارتکاب کیاہے اور یکسر غیرمستند سیدنا علی کی طرف منسوب قول پیش کرکے کہاہے کہ ان روایات کوکس طرح تسلیم کیاجاسکتاہے؟
مغالطہ انگیزی کی دوسری تکنیک یہ استعمال کی ہے کہ حدیث وتفسیرکی دس بارہ کتابو ں کے نام ذکرکردیے کہ ان تمام محدثین نے یہ روایت نقل کی ہے۔
حالانکہ سارے اہل علم جانتے ہیں کہ کتب حدیث کےدرجات ہیں۔ پہلے درجےمیں صحیحین اور ان کی ہم مرتبہ بعض کتابیں(موطاامام مالک وغیرہ)ہیں۔ دوسرےدرجے میں سنن اربعہ وغیرہ ہیں۔
موصوف نے جن کتابو ں کےنام ذکرکیےہیں، یہ سب چوتھے، پانچویں درجےکی کتابیں ہیں جوغلط وصحیح روایات اورصحابہ وتابعین کے آثارواقوال کامجموعہ ہیں۔ ان کی کسی بھی روایت سے استدلال سے پہلے اس کی استنادی حیثیت کی وضاحت ضروری ہے۔ اور موصوف نے سیدنا علی کاجوقول نقل کیاہے وہ سنداً ثابت ہی نہیں ہے۔ اس لیے کسی بھی مستند مفسرنے اس کی بنیاد پر یہ تفسیرنہیں کی ہے کہ ’ وَانْحَر‘سے مراد سینے پرہاتھ باندھناہے بلکہ سب نے قربانی کرنے ہی کا مفہوم بیان کیاہے۔
کیسی عجیب بات ہے ایک طرف صحیحین کی روایات ہیں جومجموعہ ہائے حدیث میں اول نمبر کےدرجےمیں ہیں اور ان کی روایات صحت کے اعتبارسے اعلیٰ ترین احادیث ہیں۔ اوریہ دونوں باتیں اہل سنّت کے ہاں مسلّمہ ہیں۔ دوسری طرف وہ روایات ہیں جوان کتابوں میں درج ہیں جوچوتھے پانچویں درجےکی ہیں اوران میں درج روایات بھی سندی تحقیق کے بغیرغیرمقبول ہیں۔ لیکن فراہی صاحب ان کی ایک غیرمستندروایات کوصحیحین کی حد یث کے ساتھ ملاکرکہتےہیں کہ
” اس طرح کی متناقض روایات سے اطمینان حاصل ہونے کی کوئی سبیل نہیں، جوپیاساان سےاپنی پیاس بجھاناچاہےگا یہ اس کی پیاس میں اوراضافہ کریں گی اور جوان کی طرف مائل ہوگااس کی پریشانی ہی میں