کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 63
جب کائنات کی ہر چیز اللہ کوسجدہ کرتی ہے۔
ہرچیز اللہ کی تسبیح وتحمید بھی کرتی ہے۔ ﴿وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ﴾ (الاسراء:44) ہرایک کواپنی تسبیح حتیٰ کہ صلاۃ کاعلم بھی ہے۔ ﴿ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسْبِيْحَهٗ ﴾(النور:41)
توحدیث میں سورج کاعرش کے نیچے سجدہ کرنابیان کیاگیاہے، تواس کوتسلیم کرنےمیں کیاقباحت ہے؟آخرہمارےپیغمبرکافرمان ہے جوصحیح سندسےثابت ہے۔ جب دوسری چیزوں کےسجدہ کرنےاوران کی تسبیح وتحمید کامطلب ہمیں نہیں معلوم، توتحت العرش سجدہ ریزی کامطلب اگرنہیں سمجھ سکتے(کیونکہ یہ غیبیا ت میں سے ہے)توکیاہوگا۔ آخرآسمان وزمین اور ہرچیز کاسجدہ کرنا، اسی طرح آسمان وزمین اور ہرچیزکاتسبیح کرنا، ان کانماز پڑھنا، ان کی کیفیات کابھی توہمیں علم نہیں توتحت العرش سجدہ ریزی کی کیفیت کاعلم بھی ہم اللہ پرنہیں چھوڑسکتے؟ یہ بھی توہمارےپیغمبرکافرمان ہے جوصحیح سند سےہم تک پہنچاہے۔ اس پرشک کرنےکاکیاجواز ہے؟ اور اس ایک حدیث کی بنیاد پرتمام صحیح حدیثوں کومشکوک قراردینااورانہیں قرآ ن کی تفسیرمیں ناقابل اعتبار قرار دیناکونسامعقول طریقہ ہے۔
غیرمسندروایتوں کی مثالیں
اس حدیث کی مثال پیش کرنےکے بعد فراہی صاحب فرماتےہیں:
”اب میں ایک نمونہ ان روایتوں کاپیش کرتاہوں جوعام طورپرصحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اور کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہیں لیکن ان میں نہایت بھونڈااختلاف پایا جاتاہے۔ میں اس کی وضاحت قرآ ن کی سب سےچھوٹی سورہ سے کرتاہوں۔
ابن ابی شیبہ نے مصنَّف میں، بخاری نے اپنی تاریخ میں، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور دارقطنی نے الگ الگ روایتوں میں اور ابوالشیخ، حاکم، ابن مردویہ، اوربیہقی نے اپنی سنن میں آیت ﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ۭ﴾ (الکوثر:2) (تواپنے خداوندہی کی نماز پڑھ اور اسی کےلیےقربانی کر)کی تفسیرمیں ”حضرت علی بن ابی طالب کایہ قول نقل کیاہے کہ اس سے مراد نماز کی حالت میں بائیں کلائی کے وسط میں دایاں ہاتھ رکھنا اورپھران دونوں کوسینے پررکھ لیناہے۔ “[1]
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص65-66۔