کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 61
صحیح بخاری کی روایت کی ایک مثال اور اس کی وضاحت فراہی صاحب نےاپنےدعوے کےاثبات میں کہ بخای ومسلم میں مشکوک روایات ہیں، درج ذیل حدیث مثال کے طورپرپیش کی ہے، قارئین اسے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: ”امام بخاری اور امام مسلم (علیھما الرحمۃ)دونوں نےسیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سےایک روایت یوں نقل کی ہے کہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا﴾ (یٰسین:38)(اورسورج اپنےایک معین مدارپرگردش کرتاہے)کےبابت سوال کیاتوآپ نےفرمایاکہ سورج کا مستقرعرش کےنیچےہے۔ دوسری روایت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ ہی سے ہے انہوں نےیوں بیان کی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ غروب آفتاب کے وقت مسجدمیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:ابوذر! جانتےہوسورج کہاں غروب ہوتاہے؟ میں نے جواب دیااللہ اوراس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتےہیں۔ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاوہ جاتاہےیہاں تک کہ عرش کے نیچے سجدہ میں پڑجاتا ہے، آیت ﴿وَالشَّمْسُ تَجْرِيْ لِمُسْتَــقَرٍّ لَّهَا﴾کایہی مفہوم ہے۔ ‘‘[1] اس پر”امام فراہی“ مزید کیالکھناچاہتےتھے، حاشیہ میں تحریرہے ”یہاں مصنف نےبیاض چھوڑی ہے۔ “ لیکن امام موصوف نے جس سیاق میں بطورمثال یہ حدیث بخاری ومسلم پیش کی ہے، اس سےان کامقصود یہ بتلاناہے کہ ان دونوں کتابوں میں بھی ایسی حدیثیں ہیں کہ جن کوماننابہت مشکل یاناممکن ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس حدیث میں کیاعقلی استحالہ ہے جس کی وجہ سے حدیث کی صحت میں شک کیاجائے؟ اس حدیث سے سورج کی بابت حسب ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ٭ سورج رواں دواں ہے۔ ٭ سورج غروب ہوتاہے۔ ٭ سورج سجدہ کرتاہے۔ ٭ سورج کا ایک مستقر(جائےقرار، آخری ٹھکانا )ہے۔ یہ چاروں باتیں قرآ ن سے بھی ثابت ہیں۔
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص65۔