کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 60
کیاان احادیث کوصحیح ماننا، علماء کے بےدلیل اقوال کی طرح مانناہے؟ اگرایسانہیں ہے اوریقیناًنہیں ہے توفراہی صاحب کاصحیح احادیث ِرسول کوماننا، ﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ (التوبہ :31) کامصداق کس طرح ہوسکتاہے؟
3۔ اگرکہاجائے کہ فراہی صاحب کایہ فرمان اس بنیاد پرہے کہ احادیث کی استنادی حیثیت مشکوک ہے اور مشکوک ہونے کے باوجود لوگ ان احادیث کومحض علماء کے کہنے پربےسوچے سمجھےاختیارکررہے ہیں اس لیے یہ علماء کورب بناناہی ہے۔ اور بظاہر فراہی صاحب نے شایدیہی کہناچاہاہےاوراب ان کے متبعین بھی اپنے ”امام“کے قول کی یہی توجیہ کریں گے۔ لیکن کیایہ توجیہ، یاایسادعویٰ صحیح ہے ؟ کیاواقعی صحیح بخاری کی احادیث مشکوک ہیں؟ ان کی صحت پریقین نہیں کیاجاسکتا؟ہم عرض کریں گے کہ اسی کانام توانکارِحدیث ہے اوریہی دعویٰ تودیگرمنکرین حدیث کابھی ہے۔
ذراسوچئے! جن روایات کی صحت پرپوری امت تقریباً بارہ سوسال سے متفق چلی آرہی ہے۔ اگروہ بھی مشکوک ہیں توقرآن کی صحت کس طرح یقینی ہے؟ قرآن اس وقت جیسے ایک جلد میں مرتب ہے، کیاآسمان سے اسی طرح اتراتھا؟ اگراس طرح نہیں اتراتھابلکہ لوگوں ہی نے اسے مرتب کیااور اس کے متفرق اجزاء کوجمع کرکے ایک جلد میں اس کوڈھالا۔ اگرانسانی جدوجہد، اپنی تمام ترسعی کے باوجود قابل اعتبارواعتمادنہیں ہےتوقرآن کی صحت بھی مشکوک ہے۔
آج منکرین احادیث، جیسے احادیث کومشکوک قرادےرہے ہیں، اسی طرح اسلام کادعوےدارایک گروہ قرآن کومشکوک قراردیتاچلاآرہاہے۔ دونوں کےدعوے کی بنیادایک ہی ہے کہ یہ دونوں کام انسانوں نےانجام دیے ہیں جن میں خطاکاامکان ہے۔
کیاامکانِ خطاکےباوجود، کوئی چیزمختلف ذرائع اورقرائن کےذریعےسےتحقیق کرنےکےبعدقطعی الصحت نہیں ہوسکتی؟یقیناًہوسکتی ہے۔ اس بنیادپرقرآن کی صحت بھی یقینی ہےاورحضرات شیعہ کادعویٰ یکسرغیر معقول ہے۔ اسی طرح الحمدللہ صحیح احادیث کی صحت بھی یقینی ہے، ان میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اورمنکرین حدیث کادعویٰ بھی شیعوں کی طرح یکسرغیرمعقول ہے۔