کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 59
بتایاہے لہٰذا ہم ان چیزوں پریقین نہیں رکھتےجوانہوں نے بےسوچے سمجھےاختیارکرلی ہیں۔ “[1] موصوف کایہ سارا اقتباس غلطی ہائے مضامین کاآئینہ داراور ایک منکرحدیث کےذہن کاغماز ہے۔ 1۔ بخاری اور مسلم کی روایات کی صحت پرصرف اہل حدیث ہی یقین نہیں رکھتےبلکہ اہل سنت کے تمام مکاتب فکربھی الحمدللہ یقین رکھتےہیں۔ اور وہ یہ یقین کیوں رکھتےہیں؟ صرف اس لیے کہ ان دونوں اماموں نے اس میں احادیث پوری طرح چھان پھٹک کےبعددرج کی ہیں اور بقول اصلاحی صاحب انہوں نےاحادیث کی تحقیق میں ”تحقیق کی معراج کوچھواہے“اور اساطین فن نے بھی ان کی احادیث کوہرطرح سے چھانا پھٹکاہےاور اس کےبعدہی ان کی بابت یہ سرٹیفیکٹ جاری کیاہے کہ شیخین (امام بخاری اورامام مسلم )نے اپنی مندرجہ احادیث کی صحت کے بارے میں جودعوے کیے ہیں، وہ بالکل صحیح ہیں۔ اس کے بعدہی پوری امت نے ان دونوں کتابو ں کو”صحیحین“ کادرجہ اور ان میں سے صحیح بخاری کو ’ اصح الکتب بعدکتاب اللّٰہ البخاری‘ کااعزازعطافرمایاہے۔ اس لیے ہراہل سنت بخاری کی احادیث کی صحت پرکامل یقین رکھتاہے، کسی قسم کا شک وشبہ نہیں رکھتا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اہل سنت کایہ یقین ہی ہرمنکرحدیث کے دل کاروگ بھی ہے جیساکہ قارئین نے ملاحظہ فرمایاہے کہ فراہی صاحب بھی اپنے اس روگ کوچھپانہیں سکے۔ ﴿ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاهِھِمْ۔ ۔ ۔ ﴾(آل عمران:118) 2۔ دوسری بات فراہی صاحب نے یہ فرمائی ہے کہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایات کوبے سوچے سمجھے مان لینا، یہ علماء کورب بنالیناہے جوگناہ کاکام ہے۔ اس عبارت میں کتنی بڑی جسارت کاارتکاب کیاگیاہے۔ احادیث کی ان کتابوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کومحفوظ کیاگیاہے جوصحت کے اعلیٰ درجے کی حامل ہیں۔ ان کی صحت کوماننااور ان پرعمل کرنا اطاعت ِرسول کاوہ لازمی تقاضاہے جس کاحکم اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دیاہے اوررسول کی اطاعت کواپنی ہی اطاعت قرادیاہے۔
[1] مقدمہ نظام القرآن، ص:65