کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 57
منکرین حدیث کےسرخیل سرسیداحمدخان سرپیٹ کررہ جائیں کہ یہ خزانہ ہمارےہاتھ کیوں نہیں آیا؟۔ “[1] فاضل مضمون نگارکے ایک تضاد کی وضاحت فاضل مضمون نگارجناب اسیرادروی صاحب مدیر”ترجمان الاسلام“ نے اصلاحی صاحب کی بابت جوکچھ لکھا ہے، اس سے الحمدللہ ہمارےموقف کی مکمل تائید ہوگئی ہے بلکہ ہم نے ان کےبیان کردہ تمام پہلوؤں کےعلمی ثبوت مہیا کردیے ہیں اور ان کی نہایت خطرناک گمراہیوں کی پور ی تفصیل پیش کردی ہے۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذلک۔ لیکن فاضل مضمون نگار نےایک طرف تواس بات پرزور دیاہے کہ اصلاحی صاحب نےسب کچھ فکرفراہی کی روشنی میں لکھاہے اورسارا حلقۂ فراہی بھی اس بات کااعتراف کرتاہے کہ اصلاحی صاحب کاساراکام فکرِفراہی کامکمل آئینہ دارہے اس کےباودجود موصوف، فراہی صاحب کی بابت تحریرکرتےہیں: ”بہت ممکن ہے فکرفراہی میں احادیث کی استنادی حیثیت مشکوک ہومگرقطعیت کے ساتھ یہ بات ثابت نہیں کیونکہ مولانافراہی نے بہت کم لکھاہےاور اس سلسلے میں کوئی تصریح نہیں ملتی اس لیے اس نقطۂ نگاہ کی کوئی واضح تصویرہمارےسامنے نہیں آئی۔“[2] فاضل موصوف کافراہی صاحب کواس گمراہی سے بری قراردیناجسے اصلاحی صاحب نے فکرفراہی ہی کی روشنی میں پیش کیاہے، نہایت عجیب ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نےیہ بھی لکھاہے کہ فراہی صاحب میں سرسید کی گمراہی اور انکارحدیث کافتنہ سرسید ہی کےدربارکاعطیہ ہے۔ جب ایساہے تواصل گمراہی توفکرفراہی ہی ہےجوان کے فیض یافتگان میں بھی آئی۔ البتہ یہ کہاجاسکتاہے کہ اصلاحی صاحب نے اس فکراور فتنۂ انکارحدیث کوبام عروج پرپہنچادیااور فراہی فکریااس کی آڑمیں صحیح احادیث پرنقد او ران پرطعن وتشنیع ان کاشعارقرارپایا۔ اور اب پورافراہی اور اصلاحی گروہ اسی کام میں جُتاہواہے۔ جیساکہ مذکورہ اقتباسات میں بھی اس کی طرف واضح ارشارات موجود ہیں۔
[1] رسالہ ترجمان الاسلام، شمارہ 48، اکتوبر، نومبر، دسمبر، 2001ء، جامعہ اسلامیہ، ریوڑی تالاب بنارس۔ [2] حوالۂ مذکور، ص:12۔