کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 56
مولانااصلاحی کاشاندارکارنامہ قرآن کی تفسیر”تدبرقرآن“ہے، یہ ان کی پوری زندگی کی علمی سرگرمیوں کا حاصل ہے، اس اردو تفسیرمیں انہوں نےفکرفراہی سے سرمونہ ہٹنےکی حتیٰ الامکان کوشش کی ہے۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگوں کوشک ہے۔ ان کےمداحوں اور نقادوں نے دونوں پہلوؤں پرزورقلم صرف کیاہے، ان مضامین میں دونوں طرح کےخیالات کااظہارکیاگیاہےلیکن ہمارےنزدیک ان کے نقادوں نے مولانا اصلاحی کےساتھ تھوڑی سی بےانصافی کی ہے۔ انہوں نے کہیں بھی دانستہ فکرفراہی سے انحراف نہیں کیاہے۔ وہی آیتوں کی تفسیروتاویل میں احادیث و روایات سے اجتناب واحتراز، وہی درایت کی کارفرمائی اور تفسیربالرائے کی کوشش، جاہلی ادب عربی کی روشنی میں منشا ٔقرآنی کوسمجھنے کی جدوجہد، صحیح ترین احادیث وروایات کونظراندازکرکے مفہوم قرآنی کوعقل انسانی کی حدود میں لانے اور خداکےکلام کوانسانی کلام کے اصولوں پرڈھالنے کی محنت، بائبل کی روایتوں سےتطبیق واستدلا ل ہرجگہ پائی جاتی ہے جوبظاہرفکرفراہی کی اصل روح ہے۔ اس سلسلےمیں مولانا اصلاحی اپنے استاد کے قدم سےقدم ملاکرچلے ہیں اور جہاں تک افادات فراہی میں ان کوکوئی روشنی نہیں ملی، وہاں ذاتی اجتہاد کی مشعل ہاتھ میں لے کرراہ طے کی ہے۔ ہماراخیال ہے کہ یہ اجتہاد بھی فکرفراہی کاہی فیضان ہے۔ اس لیے مولانااصلاحی پرفکرفراہی سے انحراف کاالزام کچھ درست نہیں معلوم ہوتا، ہمارے نزدیک ”تدبرقرآن “فکرفراہی کی مکمل آئینہ دارہے بظاہرہرجگہ فکرفراہی کی تیزروشنی جھماجھم برستی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ تفسیرقرآن کے بعدمولانااصلاحی نے فن حدیث کی جوعظیم الشان خدمت انجام دی ہےاس کابھی دستاویزی ثبوت علمی دنیاکے سامنےموجودہے---رسالہ علوم القرآن علی گڑھ کے ”مولانا اصلاحی نمبر“ میں مولانااصلاحی کی خدمت حدیث کاریکارڈ موجودہے۔ رسالہ معارف دارالمصنفین اعظم گڑھ کے مدیرمحترم نے”مبادئ تدبر حدیث“کاتفصیلی جائزہ لے کراس کے علمی جواہرکواس خریطےسے نکال کررسالہ معارف کے صفحات پر بکھیردیاہے جن کی چمک دمک، آب وتاب ایمان وعقیدہ کی آنکھوں کی روشنی کوسلب کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ ان بیش بہااور قیمتی جواہرات کےسامنے منکرین حدیث کے امام عبداللہ چکڑالوی، غلام احمد پرویز، کتاب ’’دواسلام‘‘کامصنف، رسالہ طلوع اسلام کےمقالہ نگارپانی بھریں،