کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 55
لکھاہے: ”ان کےذہن وفکرپرسرسیدکاجادوچل چکاتھاوہ غیراختیاری طورپرمسمریزم کے معمول کی طرح اسی راہ پرچلتے رہے جس پرسرسید کے سحرنے ان کوڈال دیاتھایہاں تک کہ خود ان کو اپنی اثرپذیری کا احساس تک نہ تھا“۔ مزیدلکھتےہیں: ”سرسیداحادیث کوقابل حجت نہیں سمجھتےتھے اور اپنی تفسیر میں بائبل پرتواعتماد کرسکتےتھےلیکن روایات حدیث پراعتماد نہیں کرتےتھے، مولانافراہی سرسید کی بعض باتوں پرتنقیدتوکرتےتھے مگران سےمتأثرہوئے بغیرنہ رہ سکے۔ تفسیرقرآن میں احادیث وروایات سے اجتناب واحتراز سرسید ہی کے دربارکاعطیہ ہے جب کہ سرسید کے رویے کے پس پردہ وہی انکارحدیث کا جذبہ کارفرماہے۔ جاہلی ادب سے استناد، تفسیربالرائےاور ذاتی ذہانت وفطانت کی مشعل ہاتھ میں لے کرخود ساختہ توجیہ وتاویل کرنا، قدیم مفسرین کااستخفاف، جگہ جگہ بائبل کے حوالےدینا، فہمِ قرآن میں صحیح احادیث کوترک کرکے تورات کوبطور شہادت پیش کرنا، یہ ساری باتیں سرسید ہی کے دربارسے ان کوحاصل ہوئیں۔ بہت ممکن ہے فکرفراہی میں احادیث کی استنادی حیثیت بھی مشکوک ہومگریہ بات قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں کیونکہ مولانا فراہی نے بہت کم لکھاہےاور اس سلسلےمیں کوئی تصریح نہیں ملتی اس لیے اس نقطۂ نگاہ کی کوئی واضح تصویرہمارےسامنے نہیں آئی۔ البتہ ان کے خصوصی شاگردجوفکرفراہی کےوارث و امین ہیں انہوں نے بہت کچھ لکھاہے اور اسلامیات کے مختلف پہلوؤں پرلکھاہے، اگریہ سب کچھ فکرفراہی کی روشنی میں لکھاہے توفکرفراہی کی صحیح تصویرہمارےسامنےآجائےگی۔ ہمارایہ سوچنااس لیے درست ہے کہ اس مکتبۂ فکر کاہرشخص مدعی ہے کہ مولانا اصلاحی، مولانافراہی کے نقطۂ نگاہ، نظریات وخیالات کےسچے اور صحیح معنی میں وارث ہیں، اس لیے کہاجاسکتاہے کہ مولانااصلاحی کی تحریریں فکرفراہی کی آئینہ دارہیں اور اس آئینے میں فکرفراہی کی بہت واضح تصویراپنے تمام خدوخال کے ساتھ نظرآجائے گی۔ ہم اس نقطۂ نگاہ سے مولاناامین احسن اصلاحی کے مضامین، مختلف موضوعات پرلکھی گئی کتابوں کاجائزہ لیتےہیں تاکہ فکرفراہی کی اصلی تصویرہمارے سامنےآجائے۔