کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 54
روشنی میں ان کے شاگرداصلاحی صاحب نے ہدف تنقید بنایاہے۔ مولاناولی اللہ مجید قاسمی صاحب نے مدیر”ترجمان الاسلام“جناب اسیرادروی صاحب کے جس مقالے کاحوالہ دیاہے، وہ مقالہ رسالۂ مذکورکےشمارہ 48(اکتوبر، نومبر، دسمبر، 2001ء)میں شائع ہواہے۔ اس کاعنوان ہے: ”فکرفراہی اور مولاناامین احسن اصلاحی“ اس مضمون کاخلاصہ یہ ہے کہ اصلاحی صاحب نےجوکچھ لکھاہے وہ مکمل طورپرفکرفراہی کاآئینہ دارہے اور اس میں اس فکرسے سرموانحراف نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس تأثرکی بھی نفی کی گئی ہے کہ اصلاحی صاحب نے کہیں کہیں اپنی انفرادی اوراجتہادی رائے بھی پیش کی ہےبلکہ فاضل مضمون نگار کی رائے یہ ہے کہ اصلاحی صاحب کی ساری کاوش فکرفراہی ہی کی آئینہ دارہے۔ ان کےمقالے کاایک حصہ ملاحظہ فرمائیں (ضرورت ہوئی توآگےہم ان کےمقالے کی بھی تلخیص پیش کریں گے)مولانااسیرادروی لکھتےہیں: ”مولاناامین احسن اصلاحی مرحوم کی اردو تفسیر”تدبرقرآن“کےمتعلق کہاجاتاہے کہ قرآنیات سے متعلق فکرفراہی کایہ عملی ظہورہے، مولانااصلاحی نے اپنے استاذ مولاناحمیدالدین فراہی کےنظریات وخیالات کی روشنی میں یہ تفسیرمرتب کی ہے، ان کےتمام علمی افادات وکمالات اور ان کی فکری خصوصیات کواس تفسیرمیں ملحوظ رکھاہے، مولانافراہی جواس مکتبۂ فکرکی روح رواں ہیں، ان کےدرسی افادات نے مولانا اصلاحی کے ذہن وفکرکوکتنی جِلابخشی ہے اس کاپتہ مولانااصلاحی کےبارےمیں لکھےجانے والے ان مضامین سے چلتاہے جوایک معیاری رسالہ ”علوم القرآن “علی گڑھ کےمولانااصلاحی نمبرمیں شائع ہوئےہیں۔ سوال یہ ہے کہ فکرفراہی کیاہے؟اس کی خصوصیات وامتیازات کیاہیں؟ پھریہ بھی سوال ہے کہ مولانافراہی کےذہن کایہ خود روپوداہے یااس کی جڑیں کسی دوسرےذہن میں ہیں؟ اور فکرفراہی میں صرف اس کے برگ وبار اور پھول پتیاں ہیں۔ “ اس کےبعد فاضل مضمون نگارنے مولانافراہی کےسرسید سے فکری تأثر پذیری کے شواہدودلائل کاذکر کے