کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 52
نہیں دےسکاہے۔ فللّٰہ الحمدوالمنۃ
4۔ یہ حق کاجھنڈانہیں، باطل کاجھنڈاہے
”امام فراہی“ کایہ فرمانا کہ اب میرےلیے حق کاجھنڈابلندکرناضروری ہوگیاہے، بڑاعجیب ہے۔ اب وہ تواس دنیامیں نہیں ہیں۔ لیکن ہم ان کے مقلدین سے یہ ضرورکہیں گے کہ یہ جھنڈا، جوموصوف نے بلند کیاہے، حق کاجھنڈا نہیں، باطل کاجھنڈاہے۔ وہ واقعی ان کی طرف سے بلندہواہےاور اب حدیث پر شب خون مارنے والے سارے فراہی اس جھنڈے تل جمع ہیں اور اپنے باطل نظریہ قرآن، حدیث کے بغیر قرآن فہمی کا پر چار کررہے ہیں۔ ھداھم اللّٰہ تعالی-
ہماری بات کسی کوتلخ محسوس ہوتوایک ہندوستانی عالم کامشاہدہ ملاحظہ فرمالیں جنہوں نے قریب سے مدرستہ الاصلاح سرائے میر کے فضلاء، ان کی سرگرمیوں اوران کی نگارشات کودیکھا اورپڑھاہے، یہ ہیں ڈاکٹرسید سعید احسن عابدی حفظہ اللہ، (جدّہ) یہ تحریر فرماتے ہیں :
”اصلاحی فضلاء کی اکثریت کےبارے میں یہ بتاتاچلوں کہ وہ حدیث کامطالعہ تنقیدی نگاہ اورجذبے سے کرتے ہیں اس لیے اگرکوئی حدیث ان کی نظرمیں، حقیقت میں نہیں، قرآن یانام نہاد عقل کے خلاف نظرآتی ہے تواس کی کوئی معقول توجیہ یاتاویل کرنے کے بجائے اس پریہ حکم لگانے میں کوئی تردد نہیں کرتے کہ یہ قرآن کے خلاف ہے، یاعقل کے خلاف ہے یاقرآن پراضافہ ہے وغیرہ۔ ان حضرات کواوّلاً سند سے بڑی چڑ ہے، ثانیاً صحیح بخاری کی حدیثوں کوہدفِ تنقید بناناان کامحبوب مشغلہ ہے۔
علی گڑھ سے فکر فراہی کاترجمان ایک شش ماہی رسالہ ”علوم القرآن “کے نام سے نکلتاہے جس میں ایسے مضامین بھی شائع ہوتےہیں جن میں حدیث کو وحی ٔ الٰہی کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے اجتہادات سے تعبیر کیاجاتاہے جن میں عام انسانوں کے اجتہادات کی طرح صواب وخطادونوں کاامکان ہے۔ “[1]
[1] حدیث کاشرعی مقام: 1/167، طبع :2014ء، الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ، مظفرگڑھ۔