کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 50
فراہی صاحب کے چنددعوےاوران کی حقیقت آگے حمیدالدین فراہی صاحب فرماتےہیں: ”میں اپنےبعض بھائیوں کے طعن سے ڈرتارہا، لیکن حدیث کےمعاملے میں ان کےغُلوّنےان کویہاں تک پہنچادیا کہ وہ حدیث کوبھی آیت﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾(الحجر:9) (یہ یاددہانی ہم ہی نے اتاری ہے اورہم ہی اس کےمحافظ ہیں)کےتحت داخل سمجھنےلگےاور اس کےنتائج پر انہوں نے غورنہیں کیا، لہٰذااب میرے لیے ضروری ہے کہ میں حق کاجھنڈابلندکروں اور اس بات کی پروانہ کروں کہ اس جرم کی پاداش میں لوگ میرا سر قلم کردیں گے۔ ‘‘[1] اس اقتباس میں موصوف نے حسب ذیل باتیں ارشاد فرمائی ہیں : 1۔ حدیث غیرمحفوظ ہے۔ 2۔ حدیث کوقرآن کی طرح محفوظ سمجھنا اہل حدیث حضرات کا غُلوّہے۔ 3۔ ایساسمجھناخطرناک نتائج کاحامل ہے۔ 4۔ اس لیےاب میرےلیے حق کا جھنڈابلندکرناضروری ہوگیاہے۔ 1۔ حدیث کی غیرمحفوظیت کادعویٰ یہ دعویٰ نیانہیں ہے۔ یہ دعویٰ ہرمنکرِحدیث کی زبان پررهتاهے۔ حالانكه علمائےاسلام نےنہایت مضبوط دلائل سے اس کی تردید کرکے احادیث کی محفوظیت کوثابت کردیاہے۔ ہم بھی اس پرتفصیل سے گفتگو کر آئےہیں۔ 2۔ حدیث کی محفوظیت کادعویٰ غُلوّنہیں، ایک حقیقت ثابتہ ہے۔ یہ دعویٰ صرف اہل حدیث حضرات کانہیں ہے بلکہ ہراس مسلمان کاعقیدہ ہے جوحدیث کوقرآن کریم کی طرح ماخذ شریعت اور دین میں حجت سمجھتاہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تکمیل دین کا اعلان فرمایاہے۔ ﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ﴾(المائدہ: 3)اور دین اسلام صرف قرآن سےمکمل نہیں ہوتا، حدیث کے ساتھ مکمل ہوتاہے۔ اسی طرح صرف قرآن کی حفاظت سے قرآن پرعمل ممکن نہیں ہوتاہے، اس لیے اس کی
[1] مقدمہ ’’نظام القرآن‘‘، ص:65۔