کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 49
پرحدیث کی بالادستی کامفہوم ہرگز نہیں ہے۔ اس قسم کامفہوم لینا ’ توجیہ القول بمالایرضی بہ القائل ’کا مصداق ہے۔ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ قرآن کریم کےاجمالات کی تفصیل اوراس کے عمومات کی تخصیص حدیث کےبغیرنہیں سمجھی جاسکتی۔ اس لیےقرآن کریم کے ایسے مقامات کی تفسیروتوضیح کےلیے حدیث ہی فیصلہ کن حیثیت کی حامل ہے نہ کہ لوگوں کے قیاسی اقوال یالغت وغیرہ۔ بتلایئے، اس میں قرآ ن کی توہین کاکیاپہلوہے؟ ہاں لوگوں کی آراء اور ٹامک ٹوئیوں کےمقابلےمیں حدیث کی بالادستی کابیان ضرورہے جو سوفیصددرست بات ہے۔ البتہ یہ قول یقیناًان کی گرانی ٔطبع کاباعث ضرورہےجوقرآن فہمی میں حدیث کےاس بنیادی کردارکی نفی کرنےوالےہیں، جن میں دیگرمنکرین حدیث کی طرح فراہی گروہ بھی شامل ہے۔ چنانچہ اس گروہ کےبانی اور”امام اوّل“حمیدالدین فراہی صاحب فرماتےہیں : ”میں اوپربیان کرچکاہوں کہ قرآن اورحدیث کےمابین اگراختلاف پایاجائےتواس صورت میں قرآن حاکم ہوگا۔ “[1] ”امام “موصوف کادعویٰ ہی غلط ہے، صحیح حدیث قرآن کےخلاف نہ ہے نہ ہوہی سکتیں ہے۔ بات دراصل کیاہے جس کی وضاحت ہم پہلے بھی کرآئےہیں؟ وہ یہ ہے کہ ایسے حضرات پہلے ایک نظریہ گھڑتے ہیں جویکسربے بنیاداورباطل ہوتاہے اور اس پرقرآنی نظریےکالیبل چسپاں کردیتےہیں۔ ظاہربات ہے کہ قرآن کی ایسی باطل تاویلات، حدیث کے ہوتے ہوئےنہیں چل سکتی، توپھریہ قرآن کےنام پر حدیث پروار کرتےہیں کہ فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے۔ اس حدیث کو ماننے سے قرآن کا نسخ لازم آتاہے، یایہ قرآن پرزیادتی ہے، اس سے حدیث قرآن پرحاکم بن جاتی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوتی۔ صرف حدیث سے ان کےاس نظریۂ باطل کی تردید ہوتی ہے۔ جوبزعم خویش انہوں نےقرآن سے”کشید“کیاہوتاہے، جیسےحدرجم کی مثال ہم پہلے بھی پیش کرآئے ہیں کہ ان حضرات کادعویٰ ہےکہ احادیث رجم قرآن کےخلاف ہیں، ان سے قرآن کانسخ لازم آتاہے یایہ قرآن پراضافہ ہیں۔ ’نعوذ باللّٰہ من تلک الھفوات‘ کیاان فراہیوں کے یہ دعوے صحیح ہیں؟ یاان کوتسلیم کیاجاسکتاہے؟
[1] مقدمہ”نظام القرآن “اورمجموعہ تفاسیرفراہی، ص :65۔