کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 474
کراچی، جامعہ بنوریہ (کراچی) جامعہ فاروقیہ (کراچی) تینوں بڑے بڑے جامعات کے مفتیانِ کرام کو رگیدا گیا ہے، جنھوں نے ان کے حقِ خلع کے اثبات والے فتوے اور عدالتی بیان کو ہدفِ تنقید بنایا تھا اور ان مفتیان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ان کے دلائل کا جواب دیں، ورنہ ان دار العلوموں کو غلط ملط فتوے دے کر بٹہ نہ لگائیں۔ اہلِ علم اس کا خود مطالعہ فرمائیں، تاکہ حنفی علما کے فقہی جمود کا اندازہ کیا جا سکے۔ 10۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے حقِ خلع کا انکار: 28 مئی 2015ء کے روزنامہ اخبارات میں اسلامی نظریاتی کونسل کا یہ بیان پڑھ کر تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی، جس میں اس کے چیئرمین نے بھی یہ اعلان کر دیا کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ خلع لینا جائز نہیں اور عدالتوں کی بابت بھی کہا کہ وہ یک طرف طور پر خلع کی ڈگری جاری نہیں کر سکتیں۔ حالاں کہ عدالتوں کو تو مجبوراً خلع کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں عورت عدالت کی طرف رجوع ہی اس وقت کرتی ہے، جب ناپسندیدہ یا ظالم خاوند سے گلو خلاصی کی کوئی صورت ہی اس کو نظر نہیں آتی اور خاوند کسی صورت بھی طلاق دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ آخر عدالتیں کس مقصد کے لیے ہیں؟ دنیا بھر کے مظلومین دادرسی کے لیے عدالت ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کیا عورت ہی ایک ایسی ہے کہ وہ دادرسی اور اپنا حق وصول کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتی؟ اور اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو فرمایا جا رہا ہے کہ عدالتیں مظلوم عورت کو اس کا حق نہ دیں، بلکہ عورت کو ظالم مرد کے شکنجۂ ستم ہی میں کسا رہنے دیں۔ کیا خوب فیصلہ ہے؟ یہ اسلامی کونسل ہے یا حنفی کونسل ہے؟ اسلام نے تو عورت کو یہ حق دیا ہے، البتہ حنفی علما عورت کو اس کا یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح نظریاتی کونسل کے چیئرمین نے اپنے اس بیان میں عورت کو تفویضِ طلاق دینے کے حق کی بھی حمایت کی ہے، حالاں کہ یہ بھی غلط ہے اور اﷲ کے دیے ہوئے حقِ خلع کے مقابلے میں ایک نئی شریعت سازی ہے، جیسا کہ اس پر مفصل بحث گزر چکی ہے۔ بہر حال مذکورہ دس مثالوں سے واضح ہے کہ علمائے احناف یقیناً عورت کے حقِ خلع کے منکر ہیں، جبکہ قرآن و حدیث کی واضح نصوص سے یہ ثابت ہے۔ علمائے احناف میں سے جن کے اندر فقہی جمود زیادہ نہیں ہے، انھوں نے بہرحال اس کو تسلیم کر لیا ہے۔ کثر اللّٰہ أمثالھم۔