کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 473
قضائے شرعی: طلاق اور خلع کی بحث میں قانونِ اسلامی کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں، ان سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ قانون اس قاعدۂ کلیہ پر وضع کیا گیا ہے کہ عورت اور مرد کا ازدواجی تعلق اگر قائم رہے تو حدود اﷲ کی حفاظت اور مودّت و رحمت کے ساتھ قائم رہے، جس کو قرآن میں امساک بالمعروف کے جامع لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اگر اس طرح ان کا باہم مل کر رہنا ممکن نہ ہو تو تسریح باحسان ہونا چاہیے۔ یعنی جو میاں بیوی سیدھی طرح مل کر نہ رہ سکتے ہوں وہ سیدھی طرح الگ ہوجائیں اور ایسی صورتیں پیدا نہ ہونے پائیں کہ ان کے اختلاف سے نہ صرف ان کی اپنی زندگی تلخ ہو، بلکہ خاندانوں میں فتنے برپا ہوں، سوسائٹی میں گندگی پھیلے، اخلاقی مفاسد کی اشاعت ہو اور آئندہ نسلوں تک اُن کے بُرے اثرات متعدی ہوجائیں۔ انہی خرابیوں کا سدِّ باب کرنے کے لیے شریعت نے مرد کو طلاق کا اور عورت کو خلع کا حق دیا ہے، تاکہ اگر وہ چاہیں تو خود تسریح باحسان کے اصول پر عمل کر سکیں، [1] لیکن بہت سی ایسی جھگڑالو طبیعتیں بھی ہوتی ہیں، جو نہ امساک بالمعروف پر عمل کر سکتی ہیں اور نہ تسریح باحسان پر آمادہ ہوتی ہیں۔ نیز ازدواجی معاشرت میں ایسی صورتیں بھی پیش آجاتی ہیں، جن میں زوجین کے درمیان یا تو حقوق کے باب میں اختلاف واقع ہوتا ہے، یا امساک بالمعروف اور تسریح باحسان دونوں پر عمل کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے شریعت نے طلاق اور خلع کے علاوہ ایک تیسرا طریقہ بھی حقوق کے تصفیے اور حقوق اﷲ کی حفاظت کے لیے مقرر کر دیا ہے جس کا نام قضاے شرعی ہے۔ [2] 9۔ مولانا قاضی محمد رویس خاں ایوبی (آزاد کشمیر): یہ بھی ایک حنفی عالم اور مفتی ہیں۔ ان کا ایک فاضلانہ مقالہ حقِ خلع کے اِثبات میں ’’الشریعہ ‘‘ (جون 2015) میں شائع ہوا ہے، جو ان کی کتاب ’’مقالاتِ ایوبی ‘‘ میں شامل ہے۔ اس میں نہایت پرزور انداز میں حنفی علما کے حقِ خلع کے انکار والے موقف پر سخت تنقید کی گئی ہے، بلکہ دارالعلوم
[1] یہاں اس بات کو بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اسلامی شریعت میاں اور بیوی کے باہمی جھگڑوں کا پبلک میں علانیہ برسرِ عدالت آنا پسند نہیں کرتی۔ اس لیے اس نے عورت اور مرد دونوں کے لیے ایسے قانونی چارۂ کار رکھ دیے ہیں کہ حتیٰ الامکان گھر کے گھر ہی میں وہ اپنے جھگڑے نمٹا لیں۔ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا بالکل آخری تدبیر ہے، جب کہ گھر میں فیصلہ کر لینے کا کوئی امکان نہ ہو۔ [2] حقوق الزوجین، ص: ۵۸۔ ۸۰