کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 472
تو عورت کو فسخِ نکاح کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حق ہمیشہ کے لیے باطل ہوگیا۔ اگر عورت کو نکاح کے وقت معلوم تھا کہ وہ نامرد ہے اور پھر وہ نکاح پر راضی ہوئی تو اس کو سرے سے قاضی کے پاس دعویٰ ہی لے جانے کا حق نہیں[1]اگر اس نے نکاح کے بعد ایک مرتبہ مباشرت کی اور پھر نامرد ہوگیا، تب بھی عورت کو دعویٰ کرنے کا حق نہیں[2] اگر عورت کو نکاح کے بعد شوہر کے نامرد ہونے کا علم حاصل ہو اور وہ اس کے ساتھ رہنے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کر دے، تب بھی وہ ہمیشہ کے لیے خیارِ فسخ سے محروم ہوگئی۔ [3] ان صورتوں میں عورت کا خیارِ فسخ تو یوں باطل ہوگیا۔ اس کے بعد ایسے ناکارہ شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دوسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ وہ خلع کر لے، مگر وہ اس کو مل نہیں سکتا، کیوں کہ شوہر سے مطالبہ کرتی ہے تو وہ اس کا پورا مہر بلکہ مہر سے کچھ زائد لے کر بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا اور عدالت سے رجوع کرتی ہے تو وہ اس کو مجبور کر کے طلاق دلوانے یا تفریق کرنے سے انکار کر دیتی ہے۔ اب غور کیجیے کہ اس غریب عورت کا حشر کیا ہو گا؟ بس یہی ناکہ یا تو وہ خود کشی کر لے یا عیسائی راہبات کی طرح نفس کشی کی زندگی بسر کرے اور اپنے نفس پر روح فرسا تکلیفیں برداشت کرے یا قیدِ نکاح میں رہ کر اخلاقی فواحش میں مبتلا ہو یا پھر سرے سے دینِ اسلام ہی کو خیرباد کہہ دے۔ مگر کیا اسلامی قانون کا منشا بھی یہی ہے کہ عورت ان حالات میں سے کسی حالت میں مبتلا ہو؟ کیا ایسے ازدواجی تعلق سے شریعت کے وہ مقاصد پورے ہو سکتے ہیں، جن کے لیے قانونِ ازدواج بنایا گیا تھا؟ کیا ایسے زوجین میں مودّت و رحمت ہو گی؟ کیا وہ باہم مل کر تمدن کی کوئی مفید خدمت کر سکیں گے؟ کیا ان کے گھر میں خوشی اور راحت کے فرشتے کبھی داخل ہو سکیں گے؟ کیا یہ قیدِ نکاح کسی حیثیت سے بھی احصان کی تعریف میں آسکے گی اور اس سے دین اور اخلاق اور عفت کا تحفظ ہو گا؟ اگر نہیں تو بتایا جائے کہ ایک بے گناہ عورت کی زندگی برباد ہونے یا مجبوراً اس کے فواحش میں مبتلا ہوجانے یا دائرۂ دین سے نکل جانے کا وبال کس کے سر ہو گا؟ خدا اور رسول تو یقیناً بری الذمہ ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے قانون میں ایسا کوئی نقص نہیں چھوڑا ہے۔
[1] في العالمکیریۃ إن علمت المرأۃ وقت النکاح أنہ عنین لا یصل إلی النساء لا یکون لھا حق الخصومۃ۔ [2] في الدر المختار: فلو جب بعد وصولہ إلیھا مرۃ أو صار عنیناً بعدہ أي الوصول لا یفرق لحصول حقھا بالوطی مرۃ۔ [3] قال الشامي قولہ: لم یبطل أي ما لم تقل: رضیتُ بالمقام معہ۔