کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 470
مسئلۂ خلع میں قاضی کے اختیارات:
قرآن مجید کی جس آیت میں خلع کا قانون بیان کیا گیا ہے، اس کو پھر پڑھیے:
﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ﴾ (البقرۃ: 229)
’’اگر تم کو خوف ہو کہ وہ اﷲ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ان دونوں (یعنی زوجین) پر اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ (یعنی عورت) کچھ فدیہ دے کر علاحدگی حاصل کر لے۔ ‘‘
اس آیت میں خود زوجین کا ذکر تو غائب کے صیغوں میں کیا گیا ہے، لہٰذا لفظ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ﴾(اگر تم کو خوف ہو) کے مخاطب وہ نہیں ہو سکتے۔ اب لا محالہ یہ ماننا پڑے گا کہ اس کے مخاطب مسلمانوں کے اولی الامر ہیں اور حکمِ الٰہی کا منشا یہ ہے کہ اگر خلع پر زوجین میں باہمی رضا مندی حاصل نہ ہو تو اولی الامر کی طرف رجوع کیا جائے۔
اس کی تائید اُن احادیث سے ہوتی ہے، جو ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے پاس خلع کے دعوے لے کر عورتوں کا آنا اور آپ کا ان کی سماعت کرنا، خود اس بات کی دلیل ہے کہ جب زوجین میں خلع پر راضی نامہ نہ ہو سکے تو عورت کو قاضی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اب اگر فی الواقع قاضی اس معاملے میں صرف سماعت کا اختیار رکھتا ہو، مگر مرد کے راضی نہ ہونے کی صورت میں اس سے اپنا فیصلہ منوانے کااقتدار نہ رکھتا ہو تو قاضی کو مرجع قرار دینا سرے سے فضول ہی ہوگا، کیوں کہ اس کے پاس جانے کا نتیجہ بھی وہی ہے جو نہ جانے کا ہے۔ لیکن کیا احادیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاضی اس معاملہ میں بے اختیار ہے؟ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے جتنے فیصلے اوپر منقول ہوئے ہیں۔ ان سب میں یا تو صیغۂ امر آیا ہے، جیسے ’ طَلِّقھَا ‘ (اسے طلاق دے) ’ فَارِقْھَا ‘(اس سے جدا ہو جا) اور ’ خَلِّ سَبِیْلَھَا ‘(اس کو چھوڑ دے) یا یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے مرد کو حکم دیا کہ ایسا کرے اور ابن جریر رحمہ اللہ نے سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے جو روایت نقل کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ فَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا ‘‘ ’’پھر آپ نے ان کو جدا کر دیا۔ ‘‘ اور یہی الفاظ اس روایت میں بھی ہیں، جو خود جمیلہ بنت اُبی بن سلول سے منقول ہے۔ اس کے بعد یہ شبہہ کرنے کی کوئی گنجایش نہیں رہتی کہ قاضی خلع کے معاملے میں حکم دینے کا مجاز نہیں۔
رہا یہ سوال کہ اگر شوہر اس حکم کو محض مشورہ سمجھ کر ماننے سے انکار کر دے تو کیا قاضی اس سے جبراً اپنا حکم منوا