کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 47
ایک مثال جس کی تکذیب خودان کے شاگردنےکردی ہم نےجوکہاہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ اس کی واضح دلیل خود اصلاحی صاحب کے اس موقف سےسامنےآجاتی ہےجوموصوف نے اپنےاستاذ فراہی صاحب کےموقف کےمقابلے میں ایک مشہور روایت کے سلسلےمیں اختیارکیاہے۔ پہلےفراہی صاحب کااقتباس ملاحظہ ہو:”اور سب سے زیادہ تعجب ان لوگوں پرہے جوایسی روایتیں تک قبول کرلیتےہیں جونصوص ِقرآن کی تکذیب کرتی ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کےجھوٹ بولنےکی روایات۔ “[1] فراہی صاحب نےجس حدیث کوبطورمثال پیش کیاہے۔ اس حدیث کوتمام منکرین حدیث کےہاں”خلاف قرآن “باورکرانےکےلیے”متفق علیہ“دلیل کی حیثیت حاصل ہے۔ فراہی صاحب نے بھی اسے پیش کردیاہے۔ لیکن فراہی صاحب ہی کےسب سےزیادہ ہونہارشاگرداصلاحی صاحب کے نزدیک یہ حدیث قرآن کےخلاف نہیں ہے۔ چنانچہ اصلاحی صاحب اپنےاستاذ کی رائے پرحاشیےمیں تحریر فرماتےہیں: ”اگرکَذِبَ کےمعنی توریہ کرنےکےلیےجائیں تواس روایت کاصحیح محل معین ہوجاتاہے اور عربی زبان کی رُوسے یہ معنی صحیح ہیں۔ “[2] ملاحظہ فرمایئے:حدیث صحیح کے”خلاف قرآن“ہونےکےنظریےیادعوےکوخود فراہی صاحب کے تلمیذرشید نےغلط ثابت کرکےعلمائےاسلام اورمحدثین کےموقف کی تائید کردی ہے کہ یہ حدیث صحیح قرآن کے خلاف نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح جوبھی کسی صحیح حدیث کوخلافِ قرآن قراردیتاہے، وہ صرف اس کااپنامغالطہ ہوتاہے یاوہ اپنےکسی باطل نظریےکاجواز کشیدکرنےکےلیےایسادعویٰ کرتاہے، حقیقت میں وہ حدیث قطعاً کسی نصّ قرآنی کےخلاف یااس کی تکذیب کرنےولی نہیں ہوتی۔ موضوع روایت کےحوالےسےصحیح روایات کاانکار ایک طریقۂ واردات ایسے لوگوں کایہ بھی ہےکہ صحیح روایات سے بدظن کرنےیاان کومشکوک ٹھہرانے کےلیےموضوع روایات کوبھی بطورمثال پیش کرکےکہتےہیں کہ دیکھوکس طرح اس سے قرآن کی تکذیب لازم
[1] حوالۂ مذکور۔ [2] حوالۂ مذکور، ص:37۔