کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 469
ہے کہ عورت اور مرد کا ازدواجی تعلق جب تک پاکیزگیِ اخلاق اور مودّت و رحمت کے ساتھ قائم رہ سکتا ہو، اس کا استحکام مستحسن اور ضروری ہے اور اس کو توڑنا یا تڑوانے کی کوشش کرنا سخت نامحمود ہے، اور جب یہ تعلق دونوں کے لیے یا دونوں میں سے کسی ایک کے لیے اخلاق کی خرابی کا سبب بن جائے یا اس میں مودّت و رحمت کی جگہ نفرت و کراہت داخل ہوجائے تو پھر اس کا توڑ دینا ضروری ہے اور اس کا باقی رہنا اغراضِ شریعت کے خلاف ہے۔ اس اصل کے ماتحت شریعت نے معاملۂ نکاح کے دونوں فریقوں کو ایک ایک قانونی آلہ ایسا دیا ہے، جس سے وہ عقدِ نکاح کے ناقابلِ برداشت ہوجانے کی صورت میں حلِ عقد کا کام لے سکتے ہیں۔ مرد کے قانونی آلہ کا نام طلاق ہے، جس کے استعمال میں اسے آزادانہ اختیار دیا گیا ہے اور اس کے بالمقابل عورت کے قانونی آلہ کا نام خلع ہے، جس کے استعمال کی صورت یہ رکھی گئی ہے کہ جب وہ عقدۂ نکاح کو توڑنا چاہے تو پہلے مرد سے اس کا مطالبہ کرے اور اگر مرد اس کا مطالبہ پورا کرنے سے انکار کر دے تو پھر قاضی سے مدد لے۔ زوجین کے حقوق میں توازن اسی طرح قائم رہ سکتا ہے اور خدا اور رسول نے در حقیقت یہی توازن قائم کیا تھا۔ مگر قاضی کے اختیارِ سماعت کو درمیان سے خارج کر کے یہ توازن بگاڑ دیا گیا، کیوں کہ اس طرح وہ قانونی آلہ جو عورت کو دیا گیا تھا، قطعاً بے کار ہوگیا اور عملاً قانون کی صورت بگڑ کر یہ ہوگئی کہ اگر مرد کو ازدواجی تعلق میں حدود اﷲ کے ٹوٹنے کا خوف ہو یا یہ تعلق اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے تو وہ اسے قطع کر سکتا ہے، لیکن اگر یہی خوف عورت کو ہو یا ازدواجی تعلق اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جائے تو اس کے پاس اس تعلق کو قطع کرانے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ تاوقتیکہ مرد ہی اس کو آزاد نہ کر دے، وہ مجبور ہے کہ بہر حال اس تعلق میں بندھی رہے، خواہ حدود اﷲ پر قائم رہنا اس کے لیے محال ہی کیوں نہ ہو جائے اور مناکحت کے شرعی مقاصد بالکل ہی کیوں نہ فوت ہوجائیں۔ کیا کسی میں اتنی جسارت ہے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی شریعت پر اتنی کھلی ہوئی بے انصافی کا الزام عائد کر سکے؟ یہ جسارت اگر کوئی کرے تو اسے اقوالِ فقہا سے نہیں، بلکہ کتاب و سنت سے اس کا ثبوت پیش کرنا چاہیے کہ اﷲ اور رسول نے خلع کے معاملے میں قاضی کو کوئی اختیار نہیں دیا ہے۔