کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 467
ایک عورت کا پچاس شوہروں کو یکے بعد دیگرے بدلنا اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ وہ کسی شخص کے نکاح میں رہتے ہوئے ایک مرتبہ بھی زنا کا ارتکاب کرے۔ 6۔ اگر عورت خلع مانگے اور مرد اس پر راضی نہ ہو تو قاضی اس کو حکم دے گا کہ اسے چھوڑ دے۔ تمام روایات میں یہی آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے ایسی صورتوں میں مال قبول کر کے عورت کو چھوڑ دینے کا حکم دیا ہے اور قاضی کا حکم بہرحال یہی معنی رکھتا ہے کہ محکوم علیہ اس کے بجا لانے کا پابند ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ بجا نہ لائے تو قاضی اس کو قید کر سکتا ہے۔ شریعت میں قاضی کی حیثیت صرف ایک مشیر کی نہیں ہے کہ اس کا حکم مشورے کے درجے میں ہو اور محکوم علیہ کو اس کے ماننے یا نہ ماننے کا اختیار ہو۔ قاضی کی اگر یہ حیثیت ہو تو لوگوں کے لیے اس کی عدالت کا دروازہ کھلا ہونا محض بے معنی ہے۔ 7۔ خلع کا حکم نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصریح کے مطابق ایک طلاقِ بائن کا ہے، یعنی اس کے بعد زمانۂ عدت میں شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا، کیوں کہ حقِ رجوع باقی رہنے سے خلع کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ نیز چوں کہ عورت نے جو مال اُس کو دیا ہے، وہ عقدِ نکاح سے اپنی رہائی کے معاوضہ میں دیا ہے، اس لیے اگر شوہر معاوضہ لے لے اور اس کو رہائی نہ دے تو یہ فریب اور دغا ہو گی، جس کو شریعت جائز نہیں رکھ سکتی۔ ہاں اگر عورت دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، کیوں کہ یہ طلاقِ مغلّظہ نہیں ہے، جس کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کے لیے تحلیل شرط ہو۔ 8۔ خلع کے معاوضہ کی تعیین میں اﷲ تعالیٰ نے کوئی قید نہیں لگائی ہے۔ جیسے معاوضے پر بھی زوجین راضی ہوجائیں، اس پر خلع ہو سکتا ہے، لیکن نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ناپسند فرمایا کہ شوہر خلع کے معاوضہ میں اپنے دیے ہوئے مہر سے زیادہ مال لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لَا یَأْخُذُ الرَّجُلُ مِنَ الْمُخْتَلِعَۃِ أَکْثَرَ مِمَّا أَعْطَاھَا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی بالفاظِ صریح اس کو مکروہ فرمایا ہے۔ ائمۂ مجتہدین کا بھی اس پر اتفاق ہے، بلکہ اگر عورت اپنے شوہر کے ظلم کی وجہ سے خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کے لیے سرے سے مال ہی لینا مکروہ ہے، جیسا کہ ہدایہ میں ہے: