کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 466
میں نفرت پیدا کرنے کے لیے وہ کافی ہوتے ہیں۔ لہٰذا قاضی کا کام صرف اس واقعہ کی تحقیق کرنا ہے کہ عورت کے دل میں شوہر سے نفرت پیدا ہو چکی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا اس کا کام نہیں ہے کہ جو وجوہ عورت بیان کر رہی ہے، وہ نفرت کے لیے کافی ہیں یا نہیں۔ 4۔ قاضی عورت کو وعظ و پند کر کے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش ضرور کر سکتا ہے، مگر اس کی خواہش کے خلاف اسے مجبور نہیں کر سکتا، کیوں کہ خلع اس کا حق ہے، جو خدا نے اس کو دیا ہے اور اگر وہ اس امر کا اندیشہ ظاہر کرتی ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے میں وہ حدود اﷲ پر قائم نہ رہ سکے گی تو کسی کو اس سے یہ کہنے کا حق نہیں کہ تو چاہے حدود اﷲ کو توڑ دے، مگر اس خاص مرد کے ساتھ بہر حال تجھ کو رہنا پڑے گا۔ 5۔ خلع کے مسئلہ میں دراصل یہ سوال قاضی کے لیے تنقیح طلب ہے ہی نہیں کہ عورت آیا جائز ضرورت کی بنا پر طالبِ خلع ہے یا محض نفسانی خواہشات کے لیے علاحدگی چاہتی ہے۔ اسی لیے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے قاضی ہونے کی حیثیت سے جب مقدماتِ خلع کی سماعت کی تو اس سوال کو بالکل نظر انداز کر دیا، کیوں کہ اول تو اس سوال کی کما حقہ تحقیق کرنا کسی قاضی کے بس کا کام نہیں۔ دوسرے خلع کا حق عورت کے لیے اس حق کے مقابلے میں ہے جو مرد کو طلاق کی صورت میں دیا گیا ہے۔ ذوّاقیت کا احتمال دونوں صورتوں میں یکساں ہے، مگر مرد کے حقِ طلاق کو قانون میں اس قید کے ساتھ مقید نہیں کیا گیا ہے کہ ذوّاقیت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ پس جہاں تک قانونی حق کا تعلق ہے، عورت کے حقِ خلع کو بھی کسی اخلاقی قید سے مقید نہ ہونا چاہیے۔ تیسری بات یہ ہے کہ کوئی طالبِ خلع عورت دوحال سے خالی نہ ہوگی، یا وہ فی الحقیقت خلع کی جائز ضرورت رکھتی ہوگی یا محض ذوّاقہ ہوگی۔ اگر پہلی صورت ہے تو اس کے مطالبہ کو ردّ کرنا ظلم ہو گا اور اگر دوسری صورت ہے تو اس کو خلع نہ دلوانے سے شریعت کے مقاصد فوت ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ جو عورت طبعاً ذوّاقہ ہوگی، وہ اپنے ذوق کی تسکین کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر کر کے رہے گی۔ اگر آپ اس کو جائز طریقے سے ایسا نہ کرنے دیں گے تو ناجائز طریقوں سے اپنی فطرت کے داعیات کو پورا کرے گی اور یہ زیادہ بُرا ہوگا۔