کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 464
’’باغ قبول کر لے اور اس کو ایک طلاق دے دے۔ ‘‘ ثابت کی ایک اور بیوی حبیبہ بنت سہل الانصاریہ تھیں، جن کا واقعہ امام مالک اور ابو داود نے اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک روز صبح سویرے حضور اپنے مکان سے باہر نکلے تو حبیبہ کو کھڑا پایا۔ دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے؟ انھوں نے عرض کیا:’ ’ لا أنا ولا ثابت بن قیس ‘‘میری اور ثابت کی نبھ نہیں سکتی۔ ‘‘ جب ثابت حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ یہ حبیبہ بنت سہل ہے، اس نے بیان کیا، جو کچھ اﷲ نے چاہا کہ بیان کرے۔ حبیبہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! جو کچھ ثابت نے مجھے دیا ہے، وہ سب میرے پاس ہے۔ حضور نے ثابت کو حکم دیا کہ وہ لے لے اور اس کو چھوڑ دے۔ بعض روایتوں میں ’ خَلِّ سَبِیْلَھَا ‘کے الفاظ ہیں اور بعض میں ’’ فَارِقْھَا ‘‘ ہے۔ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ابو داود اور ابن جریر نے سیدہ عائشہ سے اس واقعہ کو اس طرح روایت کیا ہے کہ ثابت نے حبیبہ کو اتنا مارا تھا کہ ان کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ حبیبہ نے آکر حضور سے شکایت کی، آپ نے ثابت کو حکم دیا کہ ’ خُذْ بَعْضَ مَالِھَا وَفَارِقْھَا ‘ اس کے مال کا ایک حصہ لے لے اور اس سے جدا ہو جا۔ مگر ابن ماجہ نے حبیبہ کے جو الفاظ نقل کیے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حبیبہ کو بھی ثابت کے خلاف جو شکایت تھی، وہ مار پیٹ کی نہیں، بلکہ بدصورتی کی تھی، چناں چہ انھوں نے وہی الفاظ کہے، جو دوسری احادیث میں جمیلہ سے منقول ہیں، یعنی اگر مجھے خدا کا خوف نہ ہوتا تو ثابت کے منہ پر تھوک دیتی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک عورت اور مرد کا مقدمہ پیش ہوا۔ آپ نے عورت کو نصیحت کی اور شوہر کے ساتھ رہنے کا مشورہ دیا۔ عورت نے قبول نہ کیا۔ اس پر آپ نے اسے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا، جس میں کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔ تین دن قید رکھنے کے بعد آپ نے اسے نکالا اور پوچھا کہ تیرا کیا حال رہا؟ اس نے کہا: خدا کی قسم! مجھ کو انہی راتوں میں راحت نصیب ہوئی ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے شوہر کو حکم دیا کہ ’’ اِخْلَعْھَا وَیحک وَ لَوْ مِنْ قرطھا ‘‘ اس کو خلع دے دے، خواہ وہ اس کے کان کی بالیوں کے عوض ہی میں ہو۔ [1] ربیع بنت معوذ بن عفراء نے اپنے شوہر سے اپنی تمام املاک کے معاوضہ میں خلع حاصل کرنا چاہا۔ شوہر نہ
[1] کشف الغمۃ، ج: ۲