کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 463
زیادہ کالا اور سب سے زیادہ پستہ قد اور سب سے زیادہ بدشکل تھا۔ ‘‘ واللّٰہ! ما کرھت منہ دیناً ولا خُلُقًا إِلَّا أَنِّي کرھت دمامتہ ‘ (ابن جریر) ’’خدا کی قسم میں دین یا اخلاق کی کسی خرابی کے سبب سے اس کو ناپسند نہیں کرتی، بلکہ مجھے اس کی بدصورتی ناپسند ہے۔ ‘‘ وَاللّٰہ! لَو لَا مخافۃ اللّٰہ إِذَا دَخَلَ عَلَيَّ بصقت فيْ وَجْھِہ ‘ (ابن جریر) ’’خدا کی قسم! اگر خدا کا خوف نہ ہوتا تو جب وہ میرے پاس آیا تھا، اس وقت میں اس کے منہ پر تھوک دیتی۔ ‘‘ یا رسول اللّٰہ! بي من الجمال ما تری وثابت رجل دمیم ‘(عبدالرزاق بحوالۂ فتح الباري) ’’یا رسول اﷲ! میں جیسی خوبصورت ہوں، آپ دیکھتے ہیں اور ثابت ایک بدصورت شخص ہے۔ ‘‘ وَمَا أعتب علیہ في خلق وَلَا دِیْن ولکني أکرہ الکفر في الإسلام ‘(بخاري) ’’میں اس کے دین اور اخلاق پر کوئی حرف نہیں رکھتی، مگر مجھے اسلام میں کفر کا خوف ہے۔ ‘‘[1] نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شکایت سنی اور فرمایا کہ ’ أ َتَرُدِّیْنَ عَلَیْہِ حَدِیْقَتَہُ الَّتِيْ أَعْطَاکِ؟ ’’ جو باغ تجھ کو اس نے دیا تھا، وہ تو واپس کر دے گی؟ ‘‘ انھوں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اﷲ! بلکہ وہ زیادہ چاہے تو زیادہ بھی دوں گی۔ حضور نے فرمایا: أَمَّا الزِیَادَۃُ فَلَا وَلٰکِنْ حَدِیْقَتُہُ ’’زیادہ تو نہیں، مگر تو اس کا باغ واپس کر دے۔ ‘‘ پھر ثابت کو حکم دیا: اِقْبَلِ الْحَدِیْقَۃَ وَطَلِّقْھَا تَطْلِیْقَۃً
[1] اسلام میں کفر کے خوف سے مراد یہ ہے کہ کراہت و نفرت کے باوجود اگر میں اس کے ساتھ رہی تو مجھے اندیشہ ہے کہ میں ان احکام کی پابند نہ رہ سکوں گی، جو شوہر کی اطاعت اور اس کی وفاداری اور عصمت و عفت کے تحفظ کے لیے اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیے ہیں۔ یہ ایک مومنہ کاتصور ہے کہ حقوق اﷲ کے توڑنے کو وہ کفر سمجھتی ہے اور آج کل کے مولویوں کا تصور یہ ہے کہ اگر نماز، روزہ، حج، زکات کچھ بھی ادا نہ کیا جائے اور کھلم کھلا فسق و فجور کا ارتکاب کیا جائے، تب بھی وہ اس حالت کو ایک ایمانی حالت کہنے پر اصرار کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو جنت کی بشارتیں دیتے ہیں اور جو اسے غیر ایمانی حالت کہے، اسے خارجی ٹھہراتے ہیں۔