کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 462
ہے، اسلام اسے عدالت میں لے جانا ہرگز پسند نہیں کرتا۔
5۔ اگر عورت فدیہ پیش کرے اور مرد قبول نہ کرے تو اس صورت میں عورت کو عدالت سے رجوع کرنے کا حق ہے، جیسا کہ آیتِ مذکورہ بالا میں ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ﴾ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔ اس آیت میں ’ خِفْتُمْ ‘ کا خطاب ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے اولی الامر ہی کی طرف ہے، چوں کہ اولی الامر کا اولین فرض تو حدود اﷲ کی حفاظت ہے، اس لیے ان پر لازم ہوگا کہ جب حدود اﷲ کے ٹوٹنے کاخوف متحقق ہوجائے تو عورت کو اس کا وہ حق دلوا دیں، جو انہی حدود کے تحفظ کے لیے اﷲ تعالیٰ نے اس کو عطا کیا ہے۔
یہ مجمل احکام ہیں، جن میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ حدود اﷲ کے ٹوٹ جانے کا خوف کن صورتوں میں متحقق ہو گا؟ فدیہ کی مقدار متعین کرنے میں انصاف کیا ہے؟ اور اگر عورت افتدا پر آمادہ ہو، لیکن مرد قبول نہ کرے تو ایسی صورت میں قاضی کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ ان مسائل کی تفصیلات ہم کو خلع کے ان مقدمات کی رودادوں میں ملتی ہیں، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے سامنے پیش ہوئے تھے۔
صدرِ اول کے نظائر در بابِ خلع:
خلع کا سب سے مشہور مقدمہ وہ ہے، جس میں سیدنا ثابت بن قیس سے ان کی بیویوں نے خلع حاصل کیا ہے۔ اس مقدمے کی تفصیلات کے مختلف ٹکڑے احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جن کو ملا کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ثابت سے ان کی دو بیویوں نے خلع حاصل کیا تھا۔ ایک بیوی جمیلہ بنت ابی بن سلول (عبداﷲ بن ابی کی بہن[1]) کا قصہ یہ ہے کہ انھیں ثابت کی صورت ناپسند تھی۔ انھوں نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خلع کے لیے مرافعہ کیا اور ان الفاظ میں اپنی شکایت پیش کی:
’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَا یَجمَع رأسي وَرَأْسَہٗ شَیْیٌٔ أَبَداً إِنِّيْ رفعت جانب الخباء فرأیتہ أقبلَ في عِدۃ فإذا ھُوَ أشدُّھم سواداً وأقصرھم قامۃ وأقبحھم وجھا ‘(ابن جریر)
’’یا رسول اﷲ! میرے اور اس کے سر کو کوئی چیز کبھی جمع نہیں کرسکتی۔ میں نے اپنا گھونگھٹ جو اُٹھایا تو وہ سامنے سے چند آدمیوں کے ساتھ آرہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ان سب سے
[1] بعض نے زینب بنت عبداﷲ بن ابی کہا، مگر مشہور یہی ہے کہ ان کا نام جمیلہ تھا اور عبداﷲ ابن ابی کی بیٹی نہیں، بلکہ بہن تھیں۔