کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 461
خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ﴾(البقرۃ: 229) ’’تمھارے لیے حلال نہیں ہے کہ جو کچھ تم بیویوں کو دے چکے ہو، اس میں سے کچھ بھی واپس لو۔ الا یہ کہ میاں بیوی کو یہ خوف ہو کہ اﷲ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے تو ایسی صورت میں جب کہ تم کو خوف ہو کہ میاں بیوی اﷲ کی حدود پر قائم نہ رہ سکیں گے۔ کچھ مضائقہ نہیں، اگر عورت کچھ معاوضہ دے کر عقدِ نکاح سے آزاد ہو جائے۔ ‘‘ اس آیت سے حسبِ ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں: 1۔ خلع ایسی حالت میں ہونا چاہیے، جب کہ حدود اﷲ کے ٹوٹ جانے کا خوف ہو۔ ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا﴾کے الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ اگرچہ خلع ایک بُری چیز ہے، جس طرح کہ طلاق بُری چیز ہے، لیکن جب یہ خوف ہو کہ حدود اﷲ ٹوٹ جائیں گی تو خلع لینے میں کوئی برائی نہیں۔ 2۔ جب عورت عقدِ نکاح سے آزاد ہونا چاہے تو وہ بھی اسی طرح مال کی قربانی گوارا کرے، جس طرح مرد کو اپنی خواہش سے طلاق دینے کی صورت میں گوارا کرنی پڑتی ہے۔ مرد اگر خود طلاق دے تو وہ اس مال میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا، جو اس نے عورت کو دیا تھا اور اگر عورت جدائی کی خواہش کرے تو وہ اس مال کا ایک حصہ یا پورا مال واپس کر کے جدا ہوسکتی ہے، جو اس نے شوہر سے لیا تھا۔ 3۔ افتداء (یعنی معاوضہ دے کر رہائی حاصل کرنے) کے لیے محض فدیہ دینے والی کی خواہش کافی نہیں ہے، بلکہ اس معاملے کا اتمام اس وقت ہوتا ہے، جب کہ فدیہ لینے والا بھی راضی ہو۔ مقصد یہ ہے کہ عورت محض ایک مقدارِ مال پیش کر کے آپ سے علاحدہ نہیں ہوسکتی، بلکہ علاحدگی کے لیے ضروری ہے کہ جو مال وہ پیش کر رہی ہے، اس کو شوہر قبول کر کے طلاق دے دے۔ 4۔ خلع کے لیے صرف اس قدر کافی ہے کہ عورت اپنا پورا مہر یا اس کا ایک حصہ پیش کر کے علاحدگی کا مطالبہ کرے اور مرد اس کو قبول کر کے طلاق دے دے۔ ﴿فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ﴾ کے الفاظ اس پر دلالت کرتے ہیں کہ خلع کا فعل طرفین کی رضا مندی سے مکمل ہوجاتا ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی تردید ہوتی ہے، جو خلع کے لیے عدالتی فیصلے کو شرط قرار دیتے ہیں۔ جو معاملہ گھر کے اندر طے ہو سکتا