کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 459
مان رہے ہیں اور اس کے متبادل اپنے وضع کردہ حل ’’تفویضِ طلاق ‘‘ ہی کو اس کا واحد حل بتلا رہے ہیں۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ 8۔ مولانا مودودی مرحوم کی وضاحت، خلع عقل و نقل کے مطابق ہے: مولانا مودودی مرحوم نے بھی اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین ‘‘ میں مسئلۂ خلع پر مفصل بحث کی ہے اور حنفی ہونے کے باوجود انھوں نے علمائے احناف کے خلع کے نہ ماننے پر نہ صرف یہ کہ سخت تنقید کی ہے، بلکہ عورت کے اس حقِ خلع کا قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ سے اثبات کیا ہے۔ مضمون اگرچہ خاصا لمبا ہوگیا ہے، لیکن مضمون کی اہمیت اس بات کی متقاضی ہے کہ قارئینِ کرام کو بھی اس سے آگاہ کیا جائے۔ چناں چہ ان کی کتاب کا یہ حصہ درج ذیل ہے: خلع: شرع اسلامی نے جس طرح مرد کو یہ حق دیا ہے کہ جس عورت کو وہ ناپسند کرتا ہے اور جس کے ساتھ وہ کسی طرح نباہ نہیں کر سکتا، اسے طلاق دے دے، اسی طرح عورت کو بھی یہ حق دیا ہے کہ جس مرد کو وہ ناپسند کرتی ہو اور کسی طرح اس کے ساتھ گزر بسر نہ کر سکتی ہو، اس سے خلع کر لے۔ اس باب میں احکامِ شریعت کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو اخلاقی ہے اور دوسرا قانونی۔ اخلاقی پہلو یہ ہے کہ خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کو طلاق یا خلع کا اختیار صرف ایک آخری چارۂ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے نہ یہ کہ محض خواہشات کی تسکین کے لیے طلاق اور خلع کو کھیل بنا لیا جائے۔ چناں چہ احادیث میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات منقول ہیں: إِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الذَّوَّاقِیْنَ وَالذَّوَّاقَاتِ ’’اﷲ مزے چکنے والوں اور مزے چکھنے والیوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ لَعَنَ اللّٰہُ کُلَّ ذَوَّاقٍ مِطلَاقٍ ’’ہر طالبِ لذت بکثرت طلاق دینے والے پر اﷲ نے لعنت کی ہے۔ ‘‘ أَیُّمَا امْرَأَۃٍ اخْتَلَعَتْ مِنْ زَوْجِھَا بِغَیْرِ نُشُوْزٍ فَعَلَیْھَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ