کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 458
پہلے عہدِ خیر القرون میں بھی عورتیں ان مشکلات کا شکار ہوئی ہیں۔ اس وقت فقہ حنفی سمیت کوئی بھی فقہ نہیں تھی، ان مشکلات کو کس طرح حل کیا گیا؟
ظاہر بات ہے کہ اس دور میں انھیں صرف قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کی روشنی ہی میں حل کیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں ان مشکلات کا حل موجود ہے اور یقیناً ہے۔ پھر علمائے دیوبند کا ان حلوں کو سب سے پہلے دریافت کرنے اور پیش کرنے کا دعویٰ کیوں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں جب ان تمام مشکلات کا حل الحمد ﷲ موجود ہے (جس کی تفصیل راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل ‘‘ میں موجود ہے) تو پھر ان کو بنیاد بنانے سے گریز کیوں؟
تیسرا سوال ہے کہ دوسری فقہوں کے بعض مسائل کو اختیار کرنے سے ایک حنفی، حنفیت سے خارج نہیں ہوتا، بلکہ حنفیت ہی میں رہتا ہے تو کیا قرآن و حدیث کی نصوص سے استفادہ کرنے والا حنفی حنفیت سے خارج ہوجاتا ہے؟ وہ حنفی رہتے ہوئے کم از کم ان مسائل میں، جن کا حل فقہ حنفی میں نہیں ہے، قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ میں پیش کردہ حل کیوں اختیار نہیں کرتا، یا نہیں کر سکتا؟ علمائے دیوبند نے ان حلوں کو کیوں قبول نہیں کیا اور اب بھی اس کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟ اس سے تو بظاہر یہی مفہوم نکلتا ہے کہ جس طرح فقہ حنفی میں ان کا حل نہیں ہے، شریعتِ اسلامیہ میں بھی ان کا حل نہیں ہے۔ اگر ہمارا یہ سمجھنا غلط ہے تو یہ علما جواب دیں کہ ان کے اکابر نے ایسا کیوں کیا؟ اور اب بھی شریعتِ اسلامیہ کے حل کو ماننے کے لیے کیوں تیار نہیں؟
علاوہ ازیں پھر یہ کہنا:
’’خاص طور پر ان مقامات میں جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والا کوئی قاضی موجود نہ ہو، ایسی عورتوں کے لیے اصل حنفی مسلک میں شوہر سے رہائی کی کوئی صورت نہیں۔ ‘‘
لیکن قاضی کو تو علمائے احناف تفریق بین الزوجین کا اختیار دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں تو پھر قاضی کی دہائی کیوں؟
بہر حال یہ چند باتیں یا سوالات، مولانا عثمانی صاحب کا اقتباس نقل کرتے ہوئے بے اختیار ذہن میں پیدا ہوگئے۔ ہمارا اس اقتباس سے اصل مقصود یہ واضح کرنا تھا کہ علمائے احناف خُلع کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہیں۔ اس لیے وہ خواتین کی مشکلات کے اس حل کو تو نہیں