کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 457
سازی نہیں ہے؟ کیا شریعت سازی کا یہ حق کسی کو حاصل ہے؟ چوتھا سوال یہ ہے کہ اصل شرعی حل کے مقابلے میں حنفی مذہب کے تفویضِ طلاق کو ’’بہترین طریقہ ‘‘ قرار دینا، شریعتِ اسلامیہ سے بھی برتری کا اظہار نہیں ہے؟ بہر حال مولانا تقی عثمانی صاحب ’’تفویضِ طلاق ‘‘ کے ’’فضائل ‘‘ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں، ان کے اقتباس کا دوسرا پیرا ملاحظہ ہو: ’’لیکن چوں کہ شرعی احکام سے ناواقفیت عام ہو چکی ہے، اس لیے عام طور پر لوگ نکاح کے وقت شریعت کی دی ہوئی اس سہولت سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور آگے چل کر خواتین مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ایسی خواتین جنھوں نے نکاح کے وقت تفویضِ طلاق کے طریقے کو اختیار نہ کیا ہو، اگر بعد میں کسی شدید مجبوری کے تحت شوہر سے گلو خلاصی حاصل کرنا چاہیں، مثلاً: شوہر اتنا ظالم ہو کہ نہ نفقہ دیتا ہو، نہ آباد کرتا ہو یا وہ پاگل ہو جائے یا مفقود الخبر ہوجائے یا نامرد ہو اور از خود طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو تو اصل حنفی مسلک میں ایسی عورتوں کے لیے شدید مشکلات ہیں۔ خاص طور پر ان مقامات میں جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والا قاضی موجود نہ ہو، ایسی عورتوں کے لیے اصل حنفی مسلک میں شوہر کی رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ ‘‘[1] اس پسِ منظر کے بعد انھوں نے اس امر کی صراحت فرمائی ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں سب سے پہلے خواتین کی ان مشکلات کا احساس مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے حلقۂ ارادت کے چند علما نے کیا اور پھر ان کا جو حل پیش کیا، اس پر اکابر علما کی تصدیقات بھی حاصل کیں۔ ان علمائے مرحومین نے خواتین کی مذکورہ مشکلات کا حل فقہ حنفی سے نہیں، کیوں کہ فقہ حنفی میں تو سرے سے ان کا حل ہی نہیں ہے، بلکہ دوسری فقہوں کی روشنی میں کیا۔ حالاں کہ پہلے پیرے میں انھوں نے فرمایا تھا کہ حنفی مذہب نے سب سے پہلے خواتین کی مشکلات کا احساس کیا اور اس کے لیے ایک بہترین طریقہ ’’تفویضِ طلاق ‘‘ کا تجویز کیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے، جس کی طرف ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ طریقۂ تفویض یا دیگر حَلوں سے
[1] حیلۂ ناجزہ، ص: ۹۔ ۱۰