کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 455
اختلاف کو پیشِ نظر رکھ کر جب قاضی کے نمایندے اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ ان دونوں میں تفریق اور علاحدگی ہوجانی چاہیے تو مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور دونوں کو اﷲ کی حدوں پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہو گا کہ یہ لگام مرد سے لے لی جائے اور قاضی کی طرف سے مقرر شدہ حَکم از خود تفریق کر دیں۔ ‘‘ آگے احناف کے مزید دلائل کا نہایت معقول ردّ ہے۔ اس بحث کا عنوان ہی انھوں نے یہ لکھا ہے: ’’خلع میں قاضی اور حَکم کے اختیارات ‘‘ یعنی احناف جس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ موصوف نے سب سے پہلے عنوان ہی میں اس کا اثبات کر دیا ہے اور پھر مفصل بحث کی ہے، جو ان کی کتاب ’’جدید فقہی مسائل ‘‘ حصہ دوم (97 سے 107) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں بھی چھپ گئی ہے۔ ہمارے سامنے وہی پاکستانی اِڈیشن ہے۔ ہم نے موصوف کی کتاب کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ اس سے یہ بات واضح ہے کہ احناف عورت کے اس حقِ خلع کو نہیں مانتے، جس کا اثبات قرآن و حدیث کی واضح تصریحات سے ہوتا ہے۔ مولانا رحمانی نے اسی حنفی موقف سے دلائل کی روشنی میں انکار کیا ہے۔ 6۔ ڈاکٹر تنزیل الرحمن (حنفی) نے بھی اپنی کتاب ’’مجموعہ قوانینِ اسلام ‘‘ کی جلد دوم میں اپنے حنفی مسلک سے اختلاف کرتے ہوئے متعدد صورتوں میں عورت کے لیے اس حقِ خلع کا اثبات کیا ہے، جو وہ عدالت کے ذریعے سے حاصل کر سکتی ہے۔ 7۔ آج سے کم و بیش 83 سال قبل 1351ھ میں مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے مولانا مفتی محمد شفیع صاحب اور مولانا مفتی عبدالکریم گتھلوی مرحوم کے تعاون سے ایک کتاب تالیف فرمائی تھی، اس وقت سے اب تک وہ متعدد مرتبہ شائع ہوچکی ہے۔ اس کا تازہ اِڈیشن (فوٹو) دار الاشاعت کراچی سے (فروری 1987ء میں) شائع ہوا ہے۔ اس کا مقدمہ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے لکھا ہے، جس میں انھوں نے اس کتاب کی تالیف کا پسِ منظر اور مقصد بھی بیان فرمایا ہے اور وہ حسبِ ذیل ہیں: ’’اسلام نے طلاق کا حق بے شمار حکمتوں اور مصلحتوں کی بنا پر زوجین میں سے صرف مرد کو عطا فرمایا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات سے صَرفِ نظر نہیں فرمایا کہ بعض حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں، جن میں عورت کو