کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 454
ان سے پوچھا جائے کہ عدالت کس لیے ہوتی ہے؟ اس کا کیا کام ہے؟ کیا عدالت میں سارے فیصلے طرفَین کی رضا مندی سے ہوتے ہیں؟ عدالت تو ہوتی ہی اس لیے ہے کہ ایک فریق دوسرے فریق کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، ایسی ہی صورت میں عدالت یا پنچایت مداخلت کر کے حق دار کو اس کا حق دلواتی ہے۔ علاوہ ازیں عدالت میں جانے کی ضرورت ہی اس وقت پیش آتی ہے، جب ایک فریق، دوسرے فریق کا جائز حق بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔
ایسے دنیا بھر کے مقدمات میں لوگ عدالتوں ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ کیا عورت ہی وہ واحد مظلوم ہے کہ وہ اپنے ظلم کے ازالے اور اپنا حق وصول کرنے کے لیے عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹا سکتی؟ یہ کیا انصاف ہے اور یہ کون سا قرآن و حدیث ہے، جس میں عورت پر یہ ظلم روا رکھا گیا ہے؟
خدارا! اس ظلم کو قرآن و حدیث اور اجماعِ امت کی طرف تو منسوب نہ کریں۔
پھر ستم بالائے ستم! ’’اگر کوئی عورت عدالت سے خلع کا فیصلہ لے لے گی تو وہ اﷲ کے نزدیک ناقابلِ قبول رہے گا۔ ‘‘ اس کا مطلب تو بظاہر یہی ہے کہ وہ عورت عدالت کے فیصلے کے باوجود اس ظالم اور سخت ناپسندیدہ خاوند ہی کی بیوی شمار ہوگی اور اگر وہ اس عدالتی فیصلے کو طلاق سمجھ کر کسی اور جگہ نکاح کرے گی تو عمر بھر زنا کار رہے گی۔ إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون۔
5۔ بھارت کے ایک معروف حنفی عالم ہیں، جن کی علمی و فقہی حیثیت پاک و ہند کے حنفی (دیوبندی) علما میں مسلّم ہے۔ یہ ہیں مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی، فاضل دیوبند، صدر مدرس دار العلوم سبیل السلام (حیدر آباد دکن، بھارت) انھوں نے فقہ حنفی کے انکارِ خلع کے مسلک پر سخت تنقید کی ہے اور اس پر تفصیل سے بحث کی ہے، جس میں احناف کے دلائل کا رد اور قرآن و حدیث کے دلائل سے اس کا اثبات ہے۔ اس کا صرف ایک اقتباس، جو اپنے ہم مسلک احناف کے دلائل کا ردّ کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے، حسبِ ذیل ہے:
’’ان (احناف) کا یہ کہنا کہ اصل یہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے، تسلیم ہے، مگر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور زوجین کی مصلحتوں کی رعایت کے پیشِ نظر قاضی بھی بہت سی صورتوں میں تفریق کا مختار بن جاتا ہے۔ یہاں بھی زوجین کے بڑھتے ہوئے شدید اور ناقابلِ حل