کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 453
نہایت مفصل تفسیر تحریر فرمائی ہے، جو آٹھ ضخیم جلدوں میں ہے، جس کا نام ’’معارف القرآن ‘‘ ہے۔ اس میں ہر اہم مسئلے پر مفتی صاحب مرحوم نے خاصی تفصیل سے گفتگو کی ہے، لیکن عجیب بات کہ آیتِ خلع میں خلع کے بارے میں سرے سے انھوں نے نہ صرف یہ کہ کوئی بحث نہیں کی، بلکہ نہایت پُراسرار طریقے سے بالکل خاموشی سے گزر گئے ہیں۔ یہ خاموشی کس بات کی غماز ہے؟ ؎ بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے اصل حقیقت تو اﷲ ہی جانتا ہے، لیکن کچھ نہ کچھ اندازہ قرائن و شواہد سے بھی ہوجاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس کی وجہ شاید یہی ہوسکتی ہے کہ خلع کی اصل حقیقت جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے، وہ حنفی مذہب کے خلاف ہے، جیسا کہ قارئین دیکھ رہے ہیں، اس کی صراحت ان کے حلقۂ ارادت کے لیے ناقابلِ قبول ہوتی اور حنفی موقف کے بیان سے ان کے تقلیدی جمود کا اظہار ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے خاموشی ہی کو بہتر خیال فرمایا۔ 4۔ ایک اور حنفی مفسر کی ’’جراَتِ رندانہ ‘‘ ملاحظہ ہو۔ تفسیر ’’روح القرآن ‘‘ جامعہ بنوریہ عالمیہ کراچی کے مہتمم محمد نعیم صاحب کی زیرِ نگرانی تحریر کردہ ہے۔ اس تفسیر میں اس کے مفسر آیتِ خلع کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’خلع میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے، اس میں عدالت یا تیسرا کوئی شخص مشورہ تو دے سکتا ہے، جبر نہیں کر سکتا، نہ عدالت کے پاس از خود یہ اختیار ہے کہ وہ شوہر کی رضا مندی کے بغیر عورت کے حق میں یک طرفہ (ون سائڈ) خلع کا فیصلہ کر دے۔ اگر عدالت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو قرآن و حدیث اور اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک ناقابلِ عمل ہو گا اور اﷲ کے نزدیک ناقابلِ قبول رہے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘[1] ان صاحب کی بھی جراَت دیکھ لیجیے! کہ حنفی طریقِ خلع کو، جس میں عورت اپنا حق عدالت سے بھی وصول نہیں کر سکتی، قرآن و حدیث کا بیان کردہ خلع قرار دے رہے ہیں، حالاں کہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
[1] تفسیر ’روح القرآن‘ (۱/ ۵۸۸) جامعۃ البنوریۃ العالمیۃ۔