کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 452
اس سوالیہ عنوان ہی سے اس امر کی نشان دہی ہوجاتی ہے کہ ان کے نزدیک عورت کو حقِ خلع حاصل ہی نہیں ہے۔ پھر فرماتے ہیں: ’’ہمارے زمانے میں خلع کے بارے میں ایک مسئلہ عصرِ حاضر کے متجددین نے پیدا کر دیا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ خلع ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں تراضیِ طرفین ضروری ہے اور کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کر سکتا۔ لیکن ان متجددین نے یہ دعویٰ کیا کہ خلع عورت کا ایک حق ہے، جسے وہ شوہر کی مرضی کے بغیر عدالت سے وصول کر سکتی ہے، یہاں تک کہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے عدالتِ عالیہ، یعنی سپریم کورٹ نے اس کے مطابق فیصلہ دے دیا اور اب تمام عدالتوں میں اسی فیصلے پر بطورِ قانون عمل ہو رہا ہے، حالاں کہ یہ فیصلہ قرآن و سنت کے دلائل اور جمہور کے متفقہ فیصلے کے خلاف ہے۔ ‘‘[1] دیکھ لیجیے! حقِ خلع کے انکار کے لیے مسئلے کی کیسی غلط تعبیر کی ہے، حالاں کہ اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ گھر کے اندر ہی خاوند اگر کسی صورت بھی عورت کے حقِ علاحدگی کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر وہ عورت کیا کرے؟ کیا ایسی صورت میں عدالت ہی وہ واحد راستہ نہیں ہے کہ وہ اپنا حق وہاں سے وصول کرے؟ ایسی صورت میں ’’تراضیِ طرفین ‘‘ کس طرح ممکن ہے، جس کو موصوف نہایت جراَت سے قرآن و سنت کے دلائل کے مطابق اور جمہور کا متفقہ فیصلہ باور کرا رہے ہیں؟ پھر مزید ستم ظریفی، قرآن و حدیث کے عطا کردہ حقِ خلع کو، جس کی بابت خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں قرآن نے بھی معاشرے کے ذمے داران کو خطاب کر کے ﴿وَاِنْ خِفْتُمْ﴾ کہا ہے کہ تم ان کے درمیان علاحدگی کرا دو اور حدیثِ رسول میں بیان کردہ سیدنا ثابت بن قیس کے واقعے سے بھی اسی امر کا اثبات ہوتا ہے کہ عورت حاکمِ وقت کی طرف رجوع کر سکتی ہے، موصوف اس کو عصرِ حاضر کے متجددین کا موقف قرار دے رہے ہیں؟ یہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقِ خلع کا صریح انکار نہیں ہے؟ 3۔ مولانا تقی عثمانی صاحب کے والد گرامی قدر مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے قرآن مجید کی اُردو میں
[1] درسِ ترمذی:۳/ ۴۹۷