کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 45
اس اقتباس پرغورفرمایئے۔ پہلی چیز، اصل واساس کی ہے کہ وہ صرف قرآن ہے۔ ہمارےنزدیک یہ موقف ہی گمراہی کی سب سے بڑی بنیادہے۔ لوگ قرآن کانام سن کرجھوم اٹھتےہیں کہ قرآن کی بالادستی کوتسلیم کرلیاگیاہے۔ لیکن دراصل یہ شیطانی جال اورمقام حدیث کاانکارہے۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ حدیث کے بغیرقرآن کوسمجھناہی ناممکن ہے اور جب حدیث کے بغیرقرآن کو نہ سمجھا جاسکتاہے اور نہ قرآنی تعلیمات کاصحیح نقشہ اور تصورہی سامنےآسکتاہے۔ توحدیث بھی قرآن ہی کی طرح اصل واساس کیوں نہیں؟ اس لیےہمارےنزدیک (تمام محدثین سمیت)جس طرح اسلام کی اصل واساس قرآن ہے، حدیث ِ رسول کو بھی بعینہ اسلام کی اصل واساس کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے درمیان یک سرموفرق کرناقرآن کا انکار ہے۔ بعض ائمۂ کرام کے قول السنۃ قاضیۃ علی الکتاب(سنن دارمی)کایہی مطلب ہےجس کی تفصیلی توضیح الحمدللہ ہم اس سے پہلے کرآئےہیں۔ دوسرا ظلم اس اقتباس میں حدیث پراس طرح ڈھایاگیاہے کہ حدیث کوبالکل وہی مقام دیاگیاہے جوتاریخ اور قدیم صحیفوں کاہے۔ کیایہ دعویٰ صحیح ہے، کیاحدیث کایہی مقام ہے؟ نہیں، ہرگزنہیں۔ ساری دنیاجانتی ہےکہ تاریخ رطب ویابس روایات کامجموعہ ہے۔ دوسرے، اس میں تحقیق وتنقید اور چھان پھٹک کاکام بھی نہیں ہوا ہے۔ تیسرے، اس میں اصول وضوابط کی روشنی میں تحقیق وتنقیح کابھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہواہے۔ قدیم صحیفوں کی صورت حال اس سے بھی ابترہے۔ وہ سب محرف اور یکسر غیرمستند ہیں۔ ان دونوں ماخذوں کے مقابلے میں حدیث کی حیثیت بالکل مختلف اور ان سے یکسرجداہے۔ خود اصلاحی صاحب کے بقول محدثین نے حدیث کی چھان پھٹک میں تحقیق کی معراج کی بلندیوں کوچھواہےاور انسانی امکان کی حدتک اس فن کی خدمت کی ہے۔ [1]
[1] مبادئ تدبرحدیث، ص:91۔