کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 449
کے انداز میں جو گفتگو کی ہے۔ ’ قَالَ ‘سے مراد بظاہر امام محمد رحمہ اللہ اور ’ قُلْتُ ‘سے امام شافعی ہیں، کیوں کہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس مسئلے میں امام محمد اور امام شافعی کی گفتگو کو مناظرے سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی اصل عربی عبارت ملاحظہ ہو، جس میں ناپسندیدہ خاوند سے نجات حاصل کرنے کا بعینہٖ وہی طریقہ بتلایا گیا ہے، جو صحیح بخاری کی شرح کے حوالے سے گذشتہ صفحات میں نقل کیا گیا ہے، جس کے متعلق شاید کہا جائے کہ کوئی حنفی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ ملاحظہ فرمائیے: وذکر الشافعي أنہ ناظر محمداً في امرأۃ کرھت زوجھا وامتنع من فراقھا فمکنت ابن زوجھا من نفسھا فإنھا تحرم عندھم علیٰ زوجھا علی قولھم: إن حرمۃ المصاھرۃ تثبت بالزنا [1] ’’امام شافعی نے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے امام محمد سے ایسی عورت کی بابت مناظرہ کیا، جو اپنے خاوند کو ناپسند کرتی ہے، لیکن خاوند اس کو اپنے سے علاحدہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو وہ عورت اپنے خاوند کے بیٹے کو اپنے نفس پر اختیار دے دیتی ہے (یعنی اس سے بدکاری کر لیتی ہے) تو وہ عورت (اس حیلے سے) ان کے نزدیک اپنے خاوند پر حرام ہوجائے گی، ان کے اس قول کی بنیاد پر کہ حرمتِ مصاہرت زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے۔ ‘‘ علمائے احناف کے مذکورہ فتوؤں اور امام شافعی اور حافظ ابن حجر رحمہما اللہ کے حوالوں کے بعد تو اس مسئلے میں نہ ابہام رہنا چاہیے اور نہ اس بات کی گنجایش کہ فقہائے احناف ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ موجودہ علمائے احناف و مفتیانِ کرام سے استفسار کر لیا جائے؟ جب مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ حنفی مذہب کی رُو سے خاوند کی رضا مندی کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا، یعنی خاوند سے علاحدگی ممکن ہی نہیں ہے۔ عورت کتنی بھی مشکلات کا شکار ہو، لیکن اگر خاوند اس کے مطالبۂ طلاق کو نہیں مانتا اور اس کو اپنے سے علاحدہ نہیں کرتا تو عورت کے لیے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ عدالت بھی وہ نہیں جا سکتی، کیوں کہ فقہ حنفی عورت کو عدالت جا کر اس کے ذریعے سے بھی چھٹکارا حاصل کرنے کے حق کو تسلیم
[1] فتح الباري:۱۲/ ۴۱۵، طبع دار السلام