کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 448
’’ حیلۂ ناجزہ ‘‘ میں بھی مولانا تھانوی نے مذکورہ صورتوں میں حرمتِ مصاہرت کا اثبات کیا ہے، جو اکابر علمائے دیوبند کی مصدقہ ہے۔ محولہ مسئلے (یا حیلے) کی بابت دو مستند حوالے: امام شافعی رحمہ اللہ نے مسئلہ زیرِ بحث پر عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں بڑی مفصل بحث کی ہے، جو کئی بڑے صفحات پر مشتمل ہے اور یہ بحث مکالمے کی صورت میں ہے اور اس میں دسیوں قسم کے عقلی و نقلی دلائل سے احناف کے مسئلۂ حرمتِ مصاہرت کا ردّ کیا گیا ہے۔ یہاں اس کی صرف ایک دلیل، جو بطورِ مکالمہ ہی ہے، پیش کی جاتی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اس (فریقِ مخالف) کو کہا: اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ﴾ (الا ٔحزاب: 49) ’’جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو، پھر ان کو طلاق دے دو۔ ‘‘ اور فرمایا: ﴿فَاِنْ طَلَّقَھَا﴾(البقرۃ: 229) ’’پھر اگر وہ مرد اس کو طلاق دے دے۔ ‘‘ اس میں اﷲ تعالیٰ نے طلاق کا مالک مرد کو بنایا ہے اور عورتوں کو عدت گزارنے کا حکم دیا ہے۔ فریقِ مخالف نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: عورت کی بابت بتلاؤ، اگر وہ اپنے خاوند کو طلاق دینے کا ارادہ کرے، تو کیا وہ طلاق دے سکتی ہے؟ فریقِ مخالف نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا: تم نے تو اس عورت کو طلاق کا حق دے رکھا ہے؟ اس نے کہا: کیسے؟ میں نے کہا: تمھارا خیال ہے کہ اگر عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرے (اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے) تو اس کے بیٹے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لے لے، اس طرح اس کے بیٹے کا بوسہ لینے سے وہ اپنے خاوند پر حرام ہو جائے گی۔ پس تم نے اس عورت کو (طلاق دینے کا) وہ حق دے دیا ہے، جو اﷲ نے اسے نہیں دیا اور یوں یہاں تم نے اﷲ کے اس حکم کی خلاف ورزی کی، جو حکم اس آیت اور اس سے ماقبل آیات میں ہے۔ ‘‘[1] کتاب الأم ‘ میں امام شافعی نے (ص: 153 سے 157 تک) اس موضوع پر گفتگو کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کا یہ مسئلہ ائمۂ متقدمین کا ہے، متأخرین کا بھی نہیں، بلکہ امام صاحب نے قال، أقول (قُلْتُ)
[1] کتاب الأم:۳/ ۱۵۴، طبع ۱۹۷۳ء۔