کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 447
سوال:(301)مس بالشہوت میں غلطی اور قصد اور سہو کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ’’ثم لا فرق في ثبوت الحرمۃ بالمس بین کونہ عامداً أو ناسیاً أو مکرھاً أو مخطئاً، کذا في فتح القدیر (عالمگیری)۔ ۔ ۔ ‘‘[1] سوال:ایک شخص نے بعمر تقریباً 65 سال بطورِ محبت بلا ارادۂ صحبت اپنے لڑکے کی بیوی کو پیار کیا، یعنی بوسہ لے لیا، قصد بالکل کوئی دوسرا نہیں اور نہ ارتکاب کیا گیا۔ اس کے لیے شرع کیا حکم دیتی ہے اور اگر اس کی عورت اس پر حرام ہوگئی تو اس کا نان و نفقہ اور رہایش کا کیا حکم ہے؟ سوال:(311 )اگر لڑکے کی بیوی کا بوسہ لیتے وقت اس شخص کو شہوت نہ تھی اور دل میں بھی شہوت کا خیال نہ تھا تو یہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوئی، لیکن اگر یہ بوسہ شہوت سے لیا گیا تو یہ عورت اپنے شوہر پر حرام ہوگئی۔ اگر یہ شخص قسم کے ساتھ کہہ دے کہ شہوت نہ تھی تو اس کا اعتبار کر لیا جائے گا۔ [2] جواب: بہشتی زیور حصہ چہارم صفحہ (5) پر مسئلہ: رات کو اپنی بی بی کے جگانے کے لیے اُٹھا، مگر غلطی سے لڑکی پر ہاتھ پڑ گیا یا ساس پر ہاتھ پڑ گیا اور بی بی سمجھ کر جوانی کی خواہش کے ساتھ اس کو ہاتھ لگایا تو اب وہ مرد اپنی بی بی پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگیا، اب کوئی صورت جائز ہونے کی نہیں ہے اور لازم ہے کہ یہ مرد اس عورت کو طلاق دے دے تو اب سوال یہ ہے کہ جب دونوں اس میں بے قصور ہیں تو طلاق دینے کی کیا وجہ ہے؟ سوال: (316): بہشتی زیور سے جو مسئلہ آپ نے نقل کیا ہے، یہ مسئلہ حنفیہ کے نزدیک اسی طرح ہے کہ اگر غلطی سے یا قصداً کوئی شخص اپنی لڑکی یا اپنی ساس کے بدن کو بغیر حائل ہاتھ لگا دے اور اس کو خواہش (شہوت) ہو تو اس اس کی لڑکی کی ماں یا ساس کی بیٹی (یعنی ہاتھ لگانے والے کی بیوی) اس پر حرام ہوجاتی ہے۔ اس میں اگرچہ بیوی کا قصور نہیں اور غلطی ہوجانے کی صورت میں مرد کا بھی قصور نہیں، مگر حرمت کی وجہ دوسری ہے، جس میں قصور ہونے نہ ہونے کو دخل نہیں ہے، حنفیہ کا مذہب یہی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ [3]
[1] کفایت المفتی :۵/ ۱۸۱۔ ۱۸۲، باب حرمتِ مصاہرت [2] کفایت المفتی:۵/ ۱۸۹ [3] کفایت المفتی :۵/ ۱۹۳