کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 446
اس مسئلے میں فقہائے احناف اتنے متشدد ہیں کہ اگر بھول کر یا غلطی سے بھی شہوت کے ساتھ لمس ہو جائے تو حرمت ثابت ہوجائے گی، یعنی اس پر اس کی بیوی حرام ہوجائے گی۔ حالانکہ بھول کر یا غلطی سے ہاتھ لگ جائے تو اس میں شہوت کا دخل نہیں ہوتا، لیکن احناف ایسی صورت میں بھی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، جب کہ شریعتِ اسلامیہ میں نسیان (بھول چوک) اور غیر ارادی (غلطی) سے ہونے والے فعل میں معافی اور عدمِ مؤاخذہ کی گنجایش رکھی گئی ہے۔ مسلکِ احناف کے برعکس جمہور علما و فقہا اس کو ناجائز، قابلِ تعزیر یا قابلِ حد (اگر معاملہ زنا کاری تک پہنچ جائے) جرم تو گردانتے ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ کسی فعلِ حرام سے حلال کام، حرام نہیں ہو سکتا۔ اس لیے زنا سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ ہم فقہ حنفی کے جس مسئلے کی صراحت کر رہے ہیں، وہ مفتیانِ احناف کی زبان سے ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے اصل مسئلہ ملاحظہ ہو، اس کے بعد، اس سے متفرع محولہ مسئلے کی بابت عرض کیا جائے گا۔ 1۔ دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ: سوال: (989) زید مقر ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی عورت کو شہوت سے مس کیا ہے، آیا زید کے بیٹے پر اس کی عورت حرام ہوگئی یا نہیں؟ سوال:زید کا کہنا بیٹے پر حجت نہیں ہوسکتا، لیکن اگر بیٹا بھی اس کی تصدیق کرتا ہے اور گواہوں سے ایسا مس ثابت ہے، جس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے تو بیٹے پر وہ عورت ممسوسۂ پدر با شہوت (شہوت سے باپ کی چھوئی ہوئی) حرام ہوگئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘[1] 2۔ مفتی کفایت اﷲ صاحب مفتیِ اعظم ہند کا فتویٰ: سوال: زید سے بحالتِ شہوت غلطی سے مساسِ بنت واقع ہوا، معلوم ہوتے ہی تائب و نادم ہوا۔ ۔ ۔ غلطی اور غیر غلطی کا بھی کچھ فرق ہے یا نہیں؟ برتقدیر حرام ہونے ام ممسوسہ کے اس مسئلے میں احناف کے نزدیک کوئی حیلۂ شرعی معتبر ہے یا نہیں؟
[1] عزیز الفتاویٰ، فتاویٰ دار العلوم دیوبند، :۱/ ۵۳۶، دار الاشاعت کراچی