کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 445
لَایُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَال[1] ’’حرام کام حلال کو حرام نہیں کرے گا۔ ‘‘ اس لیے اسلم و احوط راستہ عورت کے لیے حقِ خلع کا تسلیم کرنا ہے، اس حقِ شرعی کو ماننے کے بعد نہ تفویضِ طلاق کے کھکھیڑ میں پڑھنے کی ضرورت باقی رہتی ہے اور نہ اپنے سوتیلے بیٹے سے منہ کالا کرانے کی۔ اس کے بغیرہی عورت خاوند سے نجات حاصل کرنا چاہے تو کر سکتی ہے، شریعت نے جب کئی معقول طریقے تجویز کیے ہوئے ہیں تو ان کو چھوڑ کر اپنے خو ساختہ غیر معقول تجاویز پر اصرار کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ ایک ضروری وضاحت: مولانا داود راز دہلوی کی شرح بخاری کے حوالے سے احناف کا جو مسئلہ نقل ہوا ہے، وہ حرمتِ مصاہرت کے نام سے مشہور ہے، جو در اصل خلع نہ ماننے کے نتیجے میں اس کی متبادل صورت کے لیے ایک نہایت مکروہ فقہی حیلہ ہے۔ بعض لوگ شاید یہ اعتراض کریں کہ احناف کا یہ مسئلہ کسی حنفی فقہ کے حوالے سے بیان ہونا چاہیے تھا۔ بظاہر اس مسئلے یا حیلے کی نسبت احناف کی طرف صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں ہم عرض کریں گے کہ فقہ حنفی کی کتابوں پر ہماری نظر زیادہ وسیع نہیں ہے۔ تاہم اس کے متعدد شواہد موجودہ علمائے احناف کی کتابوں اور فتاوؤں میں موجود ہیں۔ علاوہ ازیں قدیم ترین کتاب ’’الام ‘‘ (امام شافعی کی مشہور کتاب) اور فتح الباری سے بھی احناف کے اس مسئلے یا حیلے کی تائید ہوتی ہے۔ اس لیے شرح بخاری میں درج یہ حوالہ بے بنیاد نہیں ہو سکتا۔ زیرِ بحث ’’حیلہ ‘‘ فقہ حنفی کے مسئلۂ حرمتِ مصاہرت پر متفرع ہے: دراصل زیرِ بحث حیلہ، فقہ حنفی کے جس مسئلے پر متفرع ہے، وہ ہے حرمتِ مصاہرت بالزنا، جو احناف کا مشہور مسئلہ ہے اور وہ فقہ حنفی کی کتابوں میں بھی اور پاک و ہند کے اکابر علمائے احناف کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مرد کی بیوی اس کے (پہلی بیوی کے) بیٹے، یا مرد اپنی بیوی کی بیٹی سے (جو اس کے پہلے خاوند سے ہو) یا اپنی ساس (بیوی کی ماں) سے بطریقِ شہوت لمس کرلے (چھولے) یا بدکاری کر لے تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بیوی ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوجائے گی۔
[1] سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث :۲۰۱۵، مزید ملاحظہ ہو: إرواء الغلیل، للألباني ۶/ ۲۸۷) نیز دیکھیں: تفسیر أحسن البیان، النساء: آیت: ۲۳ کا حاشیہ