کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 444
ایک صورت ہے، جو آثارِ صحابہ سے ثابت ہے اور یہ طلاقِ کنائی کی ایک شکل ہے۔
4۔ یا خلع یا پنچایت کے ذریعے سے علاحدگی عمل میں لائی جائے گی۔ خلع کی صورت میں عورت کو حق مہر وغیرہ واپس کرنا پڑے گا۔
ان چار طریقوں کے علاوہ کوئی پانچواں طریقہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوگا اور یہ تفویضِ طلاق پانچواں طریقہ ہے، جو فقہا کا ایجاد کردہ ہے، جس کی شریعت میں کوئی اصل ہے نہ صحابہ و تابعین کا کوئی اثر اس کی تائید میں ہے۔
ایک اور عجیب جسارت یا حیلہ:
احناف شریعت کے دیے ہوئے اس حقِ خلع کو نہیں مانتے، جو عورت کو مرد کے حقِ طلاق کے مقابلے میں دیا گیا ہے، جب کہ عورت کو اس کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس لیے احناف نے اس کا متبادل حل ایک تو تفویضِ طلاق کی صورت میں ایجاد کیا، جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں آپ نے ملاحظہ کی، اس کا ایک اور حل فقہ حنفی کی کتابوں میں لکھا ہے، جو عجیب بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مقابلے میں شوخ چشمانہ جسارت بھی۔
اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کا خاوند نہ چھوڑتا ہو اور وہ اس کے ہاتھ سے تنگ ہو تو وہ خاوند کے بیٹے سے زنا کروالے، تاکہ وہ خاوند پر حرام ہو جائے، کیوں کہ فقہ حنفی میں حرام کاری سے بھی رشتۂ مصاہرت قائم ہوجاتا ہے۔ [1]
اس حیلے کی بھی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ حقِ خلع علمائے احناف کو تسلیم نہیں، ورنہ اس قسم کی صورتوں میں عورت عدالت سے خلع کے ذریعے سے ناپسندیدہ یا ظالم شوہر سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ ھَدَاھُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ۔
ہمارے نزدیک یہ حیلہ بھی بنائے فاسد علی الفاسد ہے۔ حرام کام کے کرنے سے کوئی حلال حرام نہیں ہوسکتا۔ میاں بیوی کا تعلق حلال ہے۔ بیوی اگر خاوند کے بیٹے سے اپنا منہ کالا کروائے گی تو زناکاری جیسے جرمِ کبیرہ کی مرتکب ہوگی، لیکن اس سے وہ اپنے میاں کے لیے حرام نہیں ہوگی، حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
[1] شرح بخاری، از مولانا داود راز دہلوی۸:a/ ۲۶۶، طبع مکتبہ قدوسیہ لاہور