کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 443
خلع کی طرح پنچایت یا عدالت ہی علاحدگی کا فیصلہ کرے گی۔
خلع میں اور اس توکیل میں فرق یہ ہے کہ خلع میں حق مہر واپس لینے کا حق خاوند کو حاصل ہے، جب کہ پنچایتی فیصلے میں خاوند کو یہ حق نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ جدائی خاوند کے اقرار یا وعدے کی بنیاد پر ہو گی۔ دوسرے توکیل کی وجہ سے یہ جدائی طلاق کے قائم مقام ہو گی۔
4۔ تفویضِ طلاق؟
چوتھی اصطلاح تفویضِ طلاق ہے، جس کی اجازت فقہائے احناف اور دیگر بعض فقہا دیتے ہیں، لیکن شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، جیسا کہ اس کی تفصیل پہلے گزری، کیوں کہ بیوی کو حقِ طلاق تفویض کرنے میں ان تمام حکمتوں کی نفی ہے، جو حقِ طلاق کو صرف مرد کے ساتھ خاص کرنے میں مضمر ہیں۔
اس اعتبار سے عورت کو کسی بھی مرحلے میں حقِ طلاق تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ابتدا میں عقدِ نکاح کے وقت اور نہ بعد میں عدمِ موافقت کی صورت میں۔ عدمِ موافقت کی صورت میں چار صورتیں جائز ہوں گی، جن کی تفصیل گزری۔ ہم خلاصے کے طور پر اسے دوبارہ مختصراً عرض کرتے ہیں:
1۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح خاوند کی طرف سے عورت کو اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ خاوند کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہو، یعنی خاوند کے ساتھ رہنا پسند نہ کرے تو خاوند اس کو طلاق دے کر اپنے سے علاحدہ کر دے، جیسا کہ﴿اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا﴾(الاحزاب: 28) ’’ آؤ میں تمھیں کچھ سامان دے دوں اور تمھیں رخصت کر دوں، اچھے طریقے سے رخصت کرنا۔ ‘‘ سے واضح ہے، یعنی طلاق دے کر علاحدگی کا کام مرد ہی کی طرف سے ہو گا۔
2۔ یا پھر ’ حَکَمَیْن ‘ (دو ثالثوں) کے ذریعے سے توکیل کا اہتمام کیا جائے گا۔ ایک ثالث خاوند اور ایک بیوی کی طرف سے ہو گا۔ وہ دونوں میاں بیوی کی باتیں آمنے سامنے یا الگ الگ (جو بھی صورت مناسب اور مفید ہوگی) سنیں گے اور اس کی روشنی میں صلح و مفاہمت کی مخلصانہ کوشش کریں گے، لیکن اگر یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی تو پھر وہ ان دونوں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کر دیں گے۔ یہ فیصلہ بھی طلاق کے قائم مقام ہو گا۔
3۔ یا ’ أَمْرُکِ بِیَدِکِ ‘کہہ کر خاوند عورت کو علاحدگی کا حق دے دے۔ یہ بھی اختلافات ختم کرنے کی