کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 441
تقدیر ہی سمجھ لیں۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تو رجوع کرنا چاہتا ہے تو رجوع کر لے، یہ ایک ہی طلاق ہے اور تو رجوع کرنے کا اس عورت سے زیادہ اختیار رکھتا ہے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ایک دوسرا قول یہ نقل ہوا ہے اور اسے سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کا بھی قول بتلایا گیا ہے کہ ’ القضاء ما قضت ‘(عورت جو فیصلہ کرے گی، وہی فیصلہ ہوگا)، یعنی اس کے کہنے کے مطابق اسے طلاقِ رجعی یا بائنہ، ایک یا تین شمار کیا جائے گا، کیوں کہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا گیا تھا۔
اور ایک تیسری رائے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر عورت اسے تین طلاق شمار کرے اور خاوند کہے کہ عورت کو طلاق کا مالک بناتے وقت میری نیت ایک طلاق کی تھی، تین طلاق کا انکار کرے، جس کا فیصلہ عورت نے کیا تھا تو خاوند سے قسم لی جائے گی اور پھر اسے ایک ہی طلاق شمار کر کے خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق دیا جائے گا۔ [1]
ان آثار سے، قدرے اختلاف کے باوجود، یہ واضح ہے کہ لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علاحدگی کا اختیار دینا، زیرِ بحث تفویضِ طلاق سے یکسر مختلف معاملہ ہے، جس کا جواز ان آثار سے کشید کیا جا رہا ہے، کیوں کہ ’ أَمْرُکِ بِیَدِکِ ‘کی صورت یا تو توکیل کی بنتی ہے کہ مرد کسی اور کو وکیل بنانے کے بجائے عورت ہی کو وکیل بنا دیتا ہے یا یہ کنائی صورت ہے، کیوں کہ اس میں فیصلہ کن رائے خاوند ہی کی ہوگی کہ اگر عورت نے علاحدگی پسند کر لی ہے تو یہ کون سی طلاق شمار ہوگی: رجعی یا بائنہ، ایک یا تین؟ ایک رجعی شمار کرنے کی صورت میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔
اس سے زیرِ بحث تفویضِ طلاق کا اثبات کرنے والوں سے ہمارے چند سوال ہیں:
1۔ تفویضِ طلاق والی عورت اگر خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو کیا اس میں خاوند کی نیت کا اعتبار ہو گا یا نہیں؟
2۔ اگر خاوند کہے کہ میری مراد اس تفویضِ طلاق سے ایک طلاقِ رجعی تھی تو کیا خاوند کو عدت کے اندر رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا؟
3۔ اور اگر رجوع کا حق حاصل ہو گا تو پھر تفویضِ طلاق کی شق ہی بے معنی ہوجاتی ہے، کیوں کہ جو عورت بھی
[1] ملاحظہ ہو شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اﷲ مدنی حفظہ اللہ کی تالیف:جائزۃ الأحوذي في التعلیقات علی سنن الترمذي‘رقم الحدیث:۲/ ۴۴۹۔ ۴۵۱