کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 44
شخص نے بھی حدیث کی حجیت کومحل نظرٹھہرایاہے اور قصرنبوت پرنقب زنی کی ہے، اس نے یہی دعویٰ کیاہے کہ اسےیہ عظیم نکتہ یاگوہر نایاب قرآن کریم پرتدبرکرنے سے حاصل ہوا ہے۔ دیکھئے، مشہورمنکرحدیث اور پرویز کا استاذحافظ اسلم جےراج پوری لکھتاہے: ”جب قرآنی حقائق اللہ نےمجھ پرکھولےاس وقت حدیث کی اصل حیثیت بالکل واضح ہوگئی کہ وہ دینی تاریخ ہے خود اس کودین سمجھناصحیح نہیں۔ “[1] مولاناحمیدالدین فراہی نے بھی بہ تکرار یہی دعویٰ دہرایاہے کہ ان پرجو”حقائق“منکشف ہوئےہیں، وہ نظم قرآن پرغورکرنےہی سے ہوئےہیں۔ ان کاایک اقتباس حسب ذیل ہے: ”میں پورےاطمینان قلب کےساتھ یہ کہہ سکتاہوں کہ نظم کی تلاش میں میں نے کسی شخص کی پیروی نہیں کی ہے بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی بصیرت میری رہنمارہی ہے۔ “[2] ”اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی بصیرت“کی رُوسے حدیث کاجومقام فراہی صاحب نے متعین کیاہے، ملاحظہ ہو۔ فراہی صاحب کی نظرمیں حدیث کامقا م فرماتےہیں: ”بعض ماخذاصل واساس کی حیثیت رکھتےہیں اور بعض فرع کی۔ اصل واساس کی حیثیت توصرف قرآن کو حاصل ہے اس کے سواکسی چیز کویہ حیثیت حاصل نہیں ہے، باقی فرع کی حیثیت سے تین ہیں۔ 1۔ احادیث۔ 2۔ قوموں کےثابت شدہ اورمتفق علیہ حالات۔ 3۔ گزشتہ انبیاء کےصحیفےجومحفوظ ہیں۔ اگراحادیث، تایخ اور قدیم صحیفوں میں ظن اور شبہے کودخل نہ ہوتاتوہم ان کوفرع کےدرجے میں نہ رکھتےبلکہ سب کی حیثیت اصل کی قرارپاتی اور سب بلااختلاف ایک دوسرے کی تائیدکرتے۔ ‘‘
[1] نوادرات، ص365-شائع کردہ طلوع اسلام، کراچی، بحوالہ”غلام احمدپرویز کی فکرکاعلمی جائزہ، ازشکیل عثمانی، شائع کردہ نشریات، ص58: [2] مقدمہ تفسیر”نظام القرآن“ ص:27، اردوترجمہ ازامین احسن اصلاحی، فاران فاؤنڈیشن-طبع 1991ء-بنام مجموعہ تفاسیر فراہی۔