کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 439
اس میں بھی وہی خیارِ طلاق بلکہ طلاق بالکنایہ کا اثبات ہے، جس سے کسی کو اختلاف نہیں، یعنی لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علاحدگی کا اختیار کنائے کی صورت میں دے دینا، اس اثر کا بھی تفویضِ طلاق کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تیسرا اثر، جس سے استدلال کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہے:
’’سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا، جس نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا تو انھوں نے فرمایا: ’ القضاء ما قضت فإن تناکرا حلف ‘ وہ عورت جو فیصلہ کرے گی، وہی فیصلہ ہے، پھر اگر وہ دونوں ایک دوسرے کا انکار کریں تو مرد کو قسم دی جائے گی۔ ‘‘[1]
یہ اثر نقل کر کے فاضل مفتی تحریر فرماتے ہیں:
’’یہاں پر چوں کہ یہ اختیار نکاح نامے پر شوہر کے دستخطوں اور گواہوں کے ساتھ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہاں کسی قسم کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ‘‘[2]
لیکن اس اثر میں بھی پہلے قابلِ غور بات تو یہ ہے کہ اس میں بھی طلاق بالکنایہ والا مسئلہ ہی بیان ہوا ہے یا تفویضِ طلاق کا؟ واقعے پر غور فرما لیا جائے، اس میں بھی طلاق کنائی یا خیارِ طلاق ہی کا مسئلہ بیان ہوا ہے، جس کا تعلق شادی کے بعد ہونے والے میاں بیوی کے درمیان شدید جھگڑے سے ہے کہ اگر اختلاف کا کوئی حل نہ نکلے تو خاوند اس کا یہی حل پیش کرے کہ تجھے اختیار ہے میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا۔ اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ عورت جو فیصلہ کرے گی، وہی نافذ ہوگا۔ علاحدگی پسند کرے گی تو طلاق ہو جائے گی، بصورتِ دیگر نہیں۔ لیکن اس طلاق میں بھی فیصلہ کن بات خاوند کی نیت ہی ہے کہ طلاقِ رجعی ہے یا بائن؟
اس اثر سے بھی رشتۂ ازدواج میں جڑنے سے پہلے ہی نکاح کے موقعے پر مرد کا اپنے اس حقِ طلاق سے دست بردار ہو کر، جو اﷲ نے اسے عطا کیا ہے، عورت کو اس کا مالک بنا دینا، کس طرح ثابت ہوتا ہے؟
میاں بیوی کے درمیان عدمِ موافقت کی صورت میں ان کے اختلافات دور کرنے کے کئی طریقے ثابت
[1] مصنف ابن أبي شیبۃ :۹/ ۵۸۱، رقم الحدیث :۱۸۳۸۸
[2] ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو (مئی ۲۰۱۳ء)