کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 438
واحدۃ بائنۃ [1] ’’اگر آدمی اپنی بیوی سے کہے: تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے، یا تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو جاؤ، یا وہ اس (حق) کو اس بیوی کے گھر والوں کے حوالے کر دے، پھر وہ اسے قبول کر لیں تو یہ ایک (طلاق) بائن (نکاح کو ختم کر دینے والی) ہے۔ ‘‘ اس اثر میں غور کریں، کیا اس کا تعلق زیرِ بحث تفویضِ طلاق سے ہے؟ قطعاً نہیں۔ اس میں بھی وہی خیارِ طلاق (طلاق کنائی) یا توکیل کی صورت ہے کہ اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں خاوند بیوی کو اختیار دے دے کہ اگر تو میرے پاس رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ تو خود میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر لے۔ اگر وہ علاحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو مذکورہ اثر کی بنیاد پر اسے طلاق ہوجائے گی اور بقول عبداﷲ بن مسعود یہ ایک طلاقِ بائن ہو گی۔ یہ خیارِ طلاق سے ملتی جلتی وہی صورت ہے، جس کی تفصیل آیتِ تخییر کے ضمن میں گزری ہے یا یہ طلاق بالکنایہ ہے، کیوں کہ یہ طلاق کون سی ہوگی؟ یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے، جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ دوسری صورت اس میں توکیل کی ہے، یعنی بیوی کے گھر والوں کو طلاق دینے کا حق دے دے اور وہ طلاق دے دیں تو طلاقِ بائن ہو جائے گی۔ وکالت کو بھی شریعت نے تسلیم کیا ہے، یعنی خاوند خود طلاق نہ دے، بلکہ وکیل کے سپرد یہ کام کر دے تو وہ طلاق خاوند ہی کی طرف سے تسلیم کی جائے گی۔ مذکورہ اثر میں یہی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ ایک صورت خیارِ طلاق کی سی ہے، بلکہ یہ طلاق بالکنایہ ہے اور دوسری توکیلِ طلاق کی۔ اس اثر سے زیرِ بحث تفویضِ طلاق کا اثبات ہر گز نہیں ہوتا۔ دوسرا اثر، جس سے استدلال کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہے: ’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس وفد میں ابو الحلال العسکی رحمہ اللہ آئے، تو کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: ’ فأمرھا بیدھا ‘ پس اس عورت کا اختیار اس کے پاس ہی ہے۔ ‘‘[2]
[1] ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو:مئی ۲۰۱۳ء [2] مصنف ابن أبي شیبۃ :۵/ ۵۶، رقم الحدیث:۱۸۰۷۱