کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 437
متعۂ طلاق اور طلاق دے کر چھوڑ دیتا ہوں۔ ‘‘ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کے بجائے دنیا کی آسائشیں پسند کرتیں تو آپ ان کو طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیتے۔ از خود ان کو طلاق نہ ہوتی۔
اس سے مستقل طور پر عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنے کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر کچھ ایسے مطالبات پیش کرے، جس کو خاوند پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ بیوی سے یہ کہے کہ میں یہ مطالبات پورے نہیں کر سکتا، اگر تو انہی حالات کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورتِ دیگر میں طلاق دے کر اچھے طریقے سے تجھے فارغ کر دیتا ہوں۔ اگر عورت دوسری (طلاق کی) صورت اختیار کرتی ہے تو اسے طلاق نہیں ہوجائے گی، بلکہ خاوند اس کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے طلاق دے گا تو طلاق، یعنی علاحدگی ہوگی۔
اس صورت کا تفویضِ طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس آیت سے استدلال یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔
2۔ أَمْرُکِ بِیَدِکِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے)؟
اسی سے ملتی جلتی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ جھگڑے کے موقع پر خاوند عورت کو یہ کہہ دے: ’’ أَمْرُکِ بِیَدِکِ ‘‘ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے)
اس سے بھی بعض لوگوں نے تفویضِ طلاق کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ حالاں کہ یہ طلاق کنائی کی ایک صورت بنتی ہے اور اکثر فقہا اس کے جواز کے قائل ہیں، لیکن یہ تفویض نہیں طلاق ہے۔
نیز اول تو یہ الفاظ نہ مرفوعاً ثابت ہیں اور نہ موقوفاً، یعنی یہ نہ حدیثِ رسول ہے اور نہ کسی صحابی کا قول۔ (دیکھیں: ضعیف سنن أبی داود، للألباني: 10/ 234، رقم: 379) یہ الفاظ جامع ترمذی، سنن ابی داود اور سنن نسائی میں منقول ہیں۔ ان سب کی سندیں ضعیف ہیں، تاہم اسے حسن بصری رحمہ اللہ کا قول قرار دیا گیا ہے۔ (اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی تفصیل آگے آرہی ہے)
البتہ بعض صحابہ کے ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے بھی استدلال کیا گیا ہے، مثلاً: ’المعجم الکبیر للطبراني ‘(9/ 379، رقم الحدیث: 9627) میں سیدنا عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’إذا قال الرجل لامرأتہ: أمرک بیدک أو استفلحي بأمرک أو وھبھا لأھلھا فقبلوھا فھي